چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں
تحریر: راحیلہ کوثر
لاہور اور لا ہوریوں کا کھابوں سے چولی دامن کا تعلق ہے۔ بات جب مرچ مصالحہ اور چکن ،مٹن یا بیف کی ہو تو لاہوری نہیں ہاتھ کھینچتے اور چڑوں کے تو سب کےسب ہی شیدائ ہیں۔ایک دور تھا کہ دیسی مرغ کی ہانڈی کھا کر ہی دل خوش ہو جاتا تھا۔ آلو گوشت اور گوشت پلاو اور کباب گھر میں ہی سب بنا کر کھاتے تھے۔ نہ تب شوادمے تھے نہ ذنگر ونگر، بہت حد تھی بھی تو شامی برگر تک ہی رسائی تھی۔گھروں سے باہر جا کر کھانا کھانے کو ذیادہ تر گھرانوں میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا روایات بھی بدلتی گئیں ۔مہینے میں دو سے تین بار باہر بمع اہل و ایال جا کر کھانا ایک طرح کا فیشن ہی بن گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے نت نئے کھابے مارکیٹ میں آنے لگے چپے چپے پر ہوٹل کھلنے لگے۔اب ہرطعتیل کا باہر سے کھائے پئیے بنا مکمل ہونے کا تصور ہی ممکن نہ رہا۔اب مقابلہ باذی کا آغاذ ہوا کہ کس کس ہربہ سے گاہک کو گھیرا جائے۔لا تعداد قومی اور بین الاقوامی پکوان متعارف اور مقبول ہوتے گئے۔ جن میں سر فہرست برگر اور شوارما ہیں۔ جیسے جیسے یہ کھابےعوام الناس میں مقبول ہوتے گئے ویسے ویسے مارکیٹ میں ان کو فروخت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔اب جہاں پر سستےاور بڑے شوارمے کا بورڈ ہوتا عوام ادھر ہی ٹوٹ پڑتی۔پھر اک روز سستے شوارموں کا بھانڑا پھوٹ گیا جب ان میں مردہ مرغی کا گوشت استعمال کیے جانے کا انکشاف ہوا۔ خبر آئی سب کو صدقہ جاریہ سمجھ کر شئیر کی گئی کچھ روز سب نےتوبہ توبہ کی اور محلے کے شوارمے والے نے جھوٹ سچ سے سب کو مطمئین کیا ہم پھر سے اسی معمول میں آگئیے۔پچھلےکئی سالوں میں گدھےپائے اور گدھاکڑاھی سب لاہوریوں کا مقبول اور پسندیدہ پکوان بنا رہا۔ جہاں جہاں بھی فوڈ اتھارٹی والوں نے چھاپے مار کر گدھے کا گوشت ضبط کیا وہاں ہر گھرانا کم از کم ایک بار لازمی تشریف لے جا چکا تھا اور کئ تو اس ذائقہ کے اسقدر عادی ہو چکے تھے کہ ہر دوسرےروز ان کھابہ گھاہوں میں گدھے اور الو بنائے جاتے۔اگرچہ ابھی تک اصل الو صرف جادو گروں کی دسترس میں ہی ہیں ۔دو سال پہلے ایک نجی چینل نے ایک غلیظ کارخانے میں چوہا رول بنانے والوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا۔افسوس کی بات تو یہ تھی کہ یہ سموسے اور رول بہت سے اسکولوں میں ایک لمبے عرصے سے سپلائ کئیے جا رہے تھے۔
کئ مقامات سے تو کتوں کا گوشت تک ضبط کیا گیا اور اب چھپڑ کے مینڈکوں کی شامت آن پہنچی ہے۔ ابھی پرسوں ہی راوی پل کے قریب سے پانچ من مردہ مینڈک بر آمد ہوئے۔ جو لاہور کے معروف بازار میں فروخت کئیے جانے اور بر گر شوارما میں استعمال کئیے جانے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔اب ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا۔ مگر کھابہ گاہوں کی گزشتہ کرتوتیں تو یہی بتاتی ہیں کہ ان عاقبت اندیش لوگوں کو لالچ اور منافع کی ہوس نے اندھا کر رکھا ہے۔ نت نئے غلیظ اور حرام جانور عوام کو کھلا کھلا کے نئ نئی اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ ان ہوٹلوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں ان کو سیل کیا جاتا ہے مگر کچھ ہی دنوں میں وہاں پھر سے ریل پیل ہوتی دکھائ دیتی ہے۔ عوام کو آگہی دینے کی لئیے باقاعدہ پروگرام نشر کئیے جاتے ہیں ۔مگر نہ یہ حرام کھلانے والی مافیہ باز آتی ہے نا ان ہوٹلوں کا رخ کرنے والی عوام ،سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کے سب چھپڑ کے مینڈک ہیں ۔خیر سے اب لاہوریوں کے لئیے ان کی من پسند کھابہ گا ہوں میں اگلی آئٹم کیا ہو گی یہ تو کھانے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔کیوں لاہوریو تیار او فیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Allah bachaye aisy logon sy pta nai kya ho gya hai awam ko.
جواب دیںحذف کریں