شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟



تحریر :راحیلہ کوثر

پرسوں مجھے گروسری کے سلسلے میں لاہور کے مشہور شاپنگ مال جانے کی ضرورت پیش آئی  ۔ دیگر اشیاء خرید لینے کے بعد بناسپتی گھی کی تلاش شروع ہوئی تو ہرسوں ککنگ آئل کے ہی دیدار ہوئے پھر لگا کہ شائد ہمیں ہی کچھ مبالغہ ہو رہا ہے چنانچہ قریبی کھڑے اسٹاف ممبر سے دریافت کیا کہ گھی ہمیں ہی نہیں دکھ رہا یا واقعہ تن غائب ہے۔ تو اس نے بتایا کہ بناسپتی گھی بین ہو گیا ہے میں نے جب  اس سے وجہ دریافت کی تو اس نے لا علمی کا اظہار کیا ۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی کہ شاپر کے بعد  اب بناسپتی گھی  بھی بین۔ تو بال آخر محکمہ ماحولیات کے بعد محکمہ خوراک کو بھی ہماری صحت کی کچھ فکر ہوئی۔
کیونکہ دنیا کے کئی ممالک میں بناسپتی گھی بہت پہلے سے ہی بین ہے ۔جس کی وجہ اس میں پائے جانے والی مضر صحت عناصر ہیں ۔مگر پاکستان میں گزشہ کئی سالوں میں کئی بناسپتی گھی بنانے والی بہت  سی کمپنیاں حرام اور مردہ جانوروں کی آلائشوں ہڈیوں اور چربی تک کو گھی بنانے کی لئیے استعمال کر رہیں تھیں چناچہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ان تمام کمپنیوں کو لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد حفظان صحت کے اصولں کی پامالی کے سبب بھاری جرمانے کئیے  اور ان کی مصنوعات کو بھی  مضر صحت قرار دے کر حزف  کر  دیا گیا اور ان کو مارکیٹ میں  بین کر دیا  ۔علاوہ ازیں  ان 61 کمپنیوں کے ناموں کی باقائدہ فہرست بھی اخبارات میں جاری کی گئی ۔
مگر ان پر پابندی عائد کر دینے سے صحت کو لاحق خطرات ختم ہونا تو دور ٹل بھی نہیں سکتے ۔ اگر بناسپتی گھی میں غلیظ اجزہ کی آمیزش کو ختم بھی کر دیا جائے تب بھی اس میں مضر صحت اجزاہ کی شمولیت اس کے تکمیلی مراحل کے دوران گھی میں زم ہو جاتی ہے ۔ ان مضر صحت اجزاہ میں سلفر، ٹرانس، فیٹی ایسڈ ، پالمٹک ایسڈ اور نکل شامل ہیں ۔ یہ تمام اجزا انسانی جسم میں موٹاپا، شوگر، دل اور دماغ کے امراض کے ساتھ ساتھ کینسر جیسا موذی مرض پھیلانے کی بڑی وجہ ہیں ۔ لحاضہ حکومت نے 2020 سے بناسپتی گھی پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دیا  ہے جو کہ میرے مطابق پاکستانیوں کی صحت کو بحال رکھنے کی بہترین کاوش ہے ۔
 مجھےتو  میری عوام کی بھی فکر ہوتی ہے کہ جن کی صبح گھی چپڑے پراٹھوں سے اور رات گھی میں تلے کھابوں پر ہوی ہے ۔ کیا وہ ککنگ آئل کو بطور متبادل اپنائیں گے یا واپس دیسی گھی پر آجائیں گے۔دوسری جانب اس مہنگائ اور افراتفری کے دور میں اس پابندی کے عائد ہونے سے کتنے غریب مزدوروں کو بے روزگاری اور فاقوں کا سامنا کرنا پڑے گا یہ ایک الگ کہانی ہے جس کا انجام بھیانک بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حکومت کو ان مزدوروں کو متبادل روزگار فراہم کرنے کے متعلق بھی سوچنا ہو گا ۔ دوسری جانب ان فیکٹری کے مالکان کو بھی متبادل کاروبار کے متعلق فکر کرنا ہوگی تاکہ معاشرتی تصادم اور بے روزگاری کو قابو میں رکھا جا سکے ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک