اشاعتیں

جون, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

بِنتِ ظفر کے قلم سے

تصویر
میں نے بہت سی ایسی تحریر لکھیں جن میں اکثر اپنے والد کا ذکر کیا لیکن کوئی ایسی تحریر میں اب تک نہیں لکھ پائی جس کا عنوان صرف  میرے والد پر ہو۔ بہت عرصے سے کسی ایسے موقعے کی تلاش تھی کہ والد کے حوالے سے کوئی باقاعدہ تحریر لکھ سکوں۔ آج21 جون 2020 بروز اتوار ہے۔ آج فادرز ڈے ہے تو اس سے بہتر تحریر لکھ کر اپ لوڈ کرنے کا موقع کوئی نہیں ہو سکتا۔ میرے والد صاحب اُن خیالات کے حامی لوگوں میں شامل ہیں جن کے نزدیک رشتوں سے محبت کے اظہار کا محض ایک دن ہی مقرر نہیں ہوتا بلکہ ہر دن اور ہر لمحہ ہی محبت کے اظہار کا ہوتا ہے۔ اُن کی یہ بات ٹھیک بھی ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ رسمِ دنیا بھی ہے، موقع اور دستور بھی، تو میں بھی اسی پر چلتے ہوئے آج یہ تحریر آپ سب سے شیئر کر رہی ہوں۔ میرے پاپا ایک محبت کرنے والے حساس، زندہ دل اور ملنسار انسان ہیں۔ انہی خوبیوں کی بدولت وہ اپنے بے حد وسیع حلقہ احباب میں ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر اللہ انسان کو پہلی اولاد بیٹی سے نوازے تو وہ اپنے باپ سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ شاید میرا یہ ماننا کچھ اس لیے بھی ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک جب بھی میرے والد ص...

میری ڈائری سے

تصویر
اللہ تعالیٰ کی رحمت، شکر اور فضل کے ساتھ زندگی کا ایک اور سال تمام ہوتا ہے۔ والدین، بھائی، بہن  اوربھانجے محمد ولی کا شکریہ  جنہوں نے سالگرہ کے یہ پل  یادگار بنانے میں ہر ممکن کوشش کی۔محمد ولی کی موجودگی ہمیشہ ہی میرے لیے خوبصورت احساس رہی ہے۔والدین اور بھائی، بہن کی بدولت کیک پر شمعیں سجا   کر بطور سرپرائز میرے لیے کمرے میں لایا گیا تو ڈیڑھ سالہ محمد ولی نے بڑے اشتیاق سے کیک پر جلتی ہوئی شمعیں دیکھیں ۔شمعیں بجھا کر کیک کاٹنے کے بعد جب اُسے کھانے کی باری آئی تو وہ سمجھا کہ یہ کھانے کی نہیں بلکہ روشنی   دینے والی کوئی چیز ہے، جسے جلائیں تو   وہ روشن ہوتی اور اس سے روشنی پھیلتی ہے۔ لہذا وہ   کیک کے کٹے ہوئے پیس کو بھی لائٹ ، لائٹ کہتا رہا۔ مجھے سالگرہ کی مناسبت سے ڈھیروں کی تعداد میں مبارکباد اور دعائیں موصول ہو رہی ہیں۔ پیغامات کی چونکہ بہت وسیع فہرست ہوتی ہے مگر پھر بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر ایک کو جواب دے سکوں۔آپ سب کی محبتوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ۔ سال 2019  سے 2020تک کے حادثات و واقعات کو سوچتے ہوئے ذہن میں آتا ہے؛ میرا معیار گِراتے...

پیاری دوست راحیلہ کوثر کے نام

تصویر
اچھے دوست کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ انہیں دوستوں کی فہرست میں ایک نام پیاری دوست لکھاری راحیلہ کوثر کا بھی ہے۔آج آرٹیکل لکھتے وقت جب خیال آیا کہ ہماری دوستی کو تقریباً دس سال کا عرصہ ہو چکا ہے تو ایک نا قابلِ یقین سی بات محسوس ہوئی کہ وقت یوں پَر لگا کر اُڑ گیا اور احساس نہیں ہوا۔ راحیلہ سے پہلی ملاقات یونیورسٹی  میں  دوران ِ تعلیم بطور کلاس فیلو ہوئی۔ مجھے یاد ہے ابتدائی دور میں ابھی باقاعدہ کلاسز کا آغاز نہیں ہوا تھا تو حافظہ پروین اور میں چند مزید کلاس فیلوز کے ساتھ اپنی نشستوں پہ براجمان تھے اور ایک دوسرے سے تعارف کا سلسلہ چل رہا تھا۔ بائیں طرف کی سیٹ خالی تھی تو راحیلہ بھی وہاں  آگئی اور اس سے جان پہچان کا سلسلہ شروع ہوا ۔  اس سے بات چیت کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ صاف گو، ملنسار اور باصلاحیت لڑکی ہے۔ ہماری کلاس میں لڑکیوں میں اس کا پہلا رول نمبر تھا تو رولز کے مطابق سرنے اسے ہمارے لیے جی آر مقرر کیا تھا۔ اس لیے راحیلہ کو کلاس میں اکثر سب جی آر کہہ کر بلاتے تھے۔ پہلے سمیسٹر میں اس سے اچھی سلام دعا تھی لیکن ہماری زیادہ اچھی دوستی دوسرے سمسٹر میں ہوئی۔ جب ...