میری ڈائری سے

اللہ تعالیٰ کی رحمت، شکر اور فضل کے ساتھ زندگی کا ایک اور سال تمام ہوتا ہے۔ والدین، بھائی، بہن  اوربھانجے محمد ولی کا شکریہ  جنہوں نے سالگرہ کے یہ پل یادگار بنانے میں ہر ممکن کوشش کی۔محمد ولی کی موجودگی ہمیشہ ہی میرے لیے خوبصورت احساس رہی ہے۔والدین اور بھائی، بہن کی بدولت کیک پر شمعیں سجا  کر بطور سرپرائز میرے لیے کمرے میں لایا گیا تو ڈیڑھ سالہ محمد ولی نے بڑے اشتیاق سے کیک پر جلتی ہوئی شمعیں دیکھیں ۔شمعیں بجھا کر کیک کاٹنے کے بعد جب اُسے کھانے کی باری آئی تو وہ سمجھا کہ یہ کھانے کی نہیں بلکہ روشنی  دینے والی کوئی چیز ہے، جسے جلائیں تو  وہ روشن ہوتی اور اس سے روشنی پھیلتی ہے۔ لہذا وہ  کیک کے کٹے ہوئے پیس کو بھی لائٹ ، لائٹ کہتا رہا۔ مجھے سالگرہ کی مناسبت سے ڈھیروں کی تعداد میں مبارکباد اور دعائیں موصول ہو رہی ہیں۔ پیغامات کی چونکہ بہت وسیع فہرست ہوتی ہے مگر پھر بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر ایک کو جواب دے سکوں۔آپ سب کی محبتوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ۔
سال 2019  سے 2020تک کے حادثات و واقعات کو سوچتے ہوئے ذہن میں آتا ہے؛
میرا معیار گِراتے گِراتے
کتنے معیاری لوگ معیار سے گِرے
اور یہ  بھی؛
بڑا ہی رنگین رہا یہ سال
ہر کسی نے اپنے رنگ دکھائے
کسی کے دل اور آنکھوں سے گِرجانے اور ان میں بس جانے والا بس وہ کوئی ایک ہی لمحہ ہوتا ہے۔ جو اپنے منفی رویہ کا شکار بناتا ہے مجھے اس کے میری زندگی سے جانے کا قطعی کوئی افسوس نہیں ہوتا، چاہے وہ کوئی انتہائی قریبی ہی کیوں نہ ہو۔کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے جو وہ آپ کو ایسے لوگوں سے بچا لیتا ہے اور آپ کو آئندہ زندگی میں اُن سے اور اُن ایسوں سے محتاط رہنے کا اشارہ دیتا ہے۔ اللہ پر اس قدر یقین ہے کہ جب اس نے ایسی منفیت سے بچایا تو بہت سی مثبت اور بلا شُبہ بہترین چیزوں سے بھی نوازا۔
لوگ مجھ سے کم رابطہ رکھنے کا سبب پوچھتے ہیں، جس میں سبب پوچھنا کم اور شکوہ زیادہ ہوتا ہے تو اس شکوہ کا جوابِ شکوہ یہ ہے کہ میرے پاس وقت کی اکثر کمی ہوتی ہے اس وجہ سے میرا دوسروں سے بہت کم رابطہ ہو پاتا ہے۔ دوسرا حساسیت اور شاعرانہ طبیعت  یوں بھی مزاج  پہ اکثر اوقات ہی غالب رہتی ہے۔آرٹ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے اسپیس بہت اہم ہوتی ہے، سو ایسے لوگوں کے گریز کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب ذہن میں الفاظ جال بُن کر میرے قلم کے ذریعےکاغذ پر اتر کر کسی تحریر کی صورت اختیار کر رہے ہوتے ہیں ، یا الفاظ کسی کہانی کی شکل میں کاغذ پہ اترنے سے قبل ذہن تخلیقی سفر میں محو ہوتا ہے تب میری کیفیت اس قدر عجیب ہوتی ہے کہ میں چاہ کر بھی بیان نہیں کر سکتی اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو آپ میں سے شاذ و نادر ہی لوگ ہیں جو  میری اس کیفیت کو سمجھ سکیں۔اس وقت میری کوشش ہوتی ہے کہ میرا ابھی کسی سے بھی سامنا نہ ہو۔بعض اوقات ایسا ہوا بھی ہے کہ میرے بہت بار سلیقے سے منع اور معذرت کرنے کے باوجود مجھے دوسرے شخص کی مروتاً بیکار کی باتیں اور فضول گوئی سننی پڑی ہے جس کے نتیجے میں بحث و تکرار بھی ہوگئی۔  میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ خواہ مخواہ کی زبردستی اور دھونس رشتوں کے حُسن کو گرہن لگا دیتے ہیں۔ میری آپ سب سے انتہائی مودبانہ گزارش ہے کہ میرے بارے میں کسی بھی قسم کی منفی رائے قائم کرنے سے گریز کیا اور میری اس کیفیت کو سمجھا جائے۔ ایک جملہ جو فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے اور مجھے اس سے شدید اختلاف ہے وہ ہے،"گلے شکوے اپنوں سے ہوتے ہیں۔" جبکہ  استادِ محترم  ہمیں گلے شکوے کرنے سے منع فرماتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری کے زمرے میں آتا ہے۔اپنوں اپنوں کا راگ الاپنے والے جب یہ گھسا پٹا جملہ بول کر دل آزاری کرتے ہیں تو انہیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ اپنے وہ نہیں ہوتے جو کسی دوسرے کے جذبات اور مجبوریوں کو نہ سمجھیں ۔ ان کے جذبات کو  پسِ پُشت ڈال کر اپنی من مانی کرتے ہوئے ان سے گلوں شکووں کی دکان نہ کھول کر بیٹھا جائے بلکہ  اپنے تو وہ ہوتے ہیں کہ ہر حال میں ان کے جذبات کو سمجھا اور ان کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔

مجھے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی قلمی قابلیت کی بنا پر کوئی معاشی فائدہ تو حاصل ہوتا نہیں تو پھر ایسے لکھنے کا کیا فائدہ؟ میں ان کی اس بات کا جواب نہیں دیتی کیونکہ میں سمجھتی ہوں قلمی صلاحیت مجھے خاص میرے رب کی عطا کردہ ہے جس میں میرا کوئی کمال نہیں۔بہت سارے لوگ انسانوں سے توقع وابستہ کر کے اللہ سے امید رکھنا فراموش کردیتے ہیں ۔ لوگوں سے توقعات باندھ کر بیٹھ جانامیری ترجیحات میں کبھی بھی نہیں رہا۔مجھے اپنے ہر کام کی اللہ سے اچھی امید رہتی ہے کہ یہی میرے رب کا حکم ہے۔زمینی خداؤں کی بجائے اللہ پہ توکل کرنا چاہیے جو ہر جگہ موجود ، ہر شے پہ قادر ہے۔ انسان تو وسیلہ ہوتے ہیں اور انھیں وسیلہ بنانے والی صرف ربِ باری تعالی کی ذات ہے۔اگر اللہ کو منظور ہوا او ر اس میں اس نے  میرے لئے کسی بہتری اور بھلائی رکھی ہو گی تو جس قلمی صلاحیت سے اس نے مجھے نواز رکھا ہے اس کی بدولت مجھے معاشی، معاشرتی ، دینی غرض یہ کہ ہر طرح کے فوائد حاصل ہوں گے۔ استادِ محترم فرماتے ہیں کہ اللہ نے جو صلاحیت آپ کو نوازی ہےروزِ محشر  اُس کا آپ سے سوال ہو گا۔ اگر آپ کی صلاحیت و ذات سے کسی کو نفع نہیں ہو رہا  یا  اُس صلاحیت کے استعمال میں آپ کے عمل اور نیت میں لالچ، غرض اور کھوٹ ہے تو پھر آپ کانسی، چاندی، سونے کے تمغے چھوڑ ہیرا بھی حاصل کر لیں تو  سب بیکار  اور رائیگاں ہے۔

جب کوئی شخص انصاف حاصل کرنے کی غرض سے مجھ سے اپنی کہانی لکھنے کو کہتا ہے تو مجھے دل سے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ مجھے اس قابل جانا گیا ہے کہ میں حق کی آواز بلند کرنے میں کسی کا ساتھ دے سکوں۔ تب اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں رکھنا جو تیری مخلوق کے کام آتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ جس قلم کی صلاحیت سے اس نے مجھے نوازا  ہے اسی قلم سے نکلے الفاظ کسی حقدار کی آواز بن کرمتعلقہ اداروں اور شخصیات تک پہنچیں اور اس کے مثبت اثرات نقش ہو سکیں۔قلم کار عوام کا نبض شناس بھی ہوتا ہےجو اپنے لوگوں کے مسائل جانتا، سنتا اور سمجھتا ہےپھر کسی رہنما کی مانند انھیں ان مسائل کا حل بتا کے رہنما ئی کرتا ہے۔برائی کے خلاف ڈٹ کے کھڑا ہوتا ہے اپنے لوگوں کو پوری سچائی اور ایمانداری سے اچھے اور برے کی پہچان بتاتا ہے۔ اگر میں کسی برے عمل کے خلاف لکھتی ہوں تو اسے میری کسی سے ذاتی دشمنی ، پرخاش یا عنادسے ہر گز   نہ جوڑا جائے۔ اور جب میں کسی کو اچھے عمل کی بنا پر قلم کے ذریعے سراہوں تو اسے میرے ذاتی مفاد کا نام بھی نہ دیا جائے کیونکہ ایسے بہت سارے لوگ موجود ہیں جن کے اچھے عمل کا تذکرہ میں نے اپنی تحریروں میں کیا ہے مگر نہ میں ان سے کبھی ذاتی طور پہ ملی اور نہ ہی میرا کبھی ان سےکوئی  رابطہ ہوا ہے ۔میرا قلم اتنا ارزاں نہیں ہے کہ اپنے کسی ذاتی مقصد کے لئے اس کا استعمال کروں۔میرے پاس منفی لوگوں اور منفیت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ میں نے ہمیشہ ہر میدان میں منفیت سے دور رہنے اور مثبت ذہن، سوچوں میں رہنےاور ان کی صحبت اختیار کرنےکو ترجیح دی ہے ۔بس اس بات کا پکا ارادہ ہے کہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح ہر صورت کہنا ہے۔اللہ  مجھے اس میدان میں ثابت قدم  اور میری آخری سانس تک میرا قلم رواں رکھے، آمین۔


از قلم، علینہ ظفر




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟