پیاری دوست راحیلہ کوثر کے نام

اچھے دوست کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ انہیں دوستوں کی فہرست میں ایک نام پیاری دوست لکھاری راحیلہ کوثر کا بھی ہے۔آج آرٹیکل لکھتے وقت جب خیال آیا کہ ہماری دوستی کو تقریباً دس سال کا عرصہ ہو چکا ہے تو ایک نا قابلِ یقین سی بات محسوس ہوئی کہ وقت یوں پَر لگا کر اُڑ گیا اور احساس نہیں ہوا۔ راحیلہ سے پہلی ملاقات یونیورسٹی  میں  دوران ِ تعلیم بطور کلاس فیلو ہوئی۔ مجھے یاد ہے ابتدائی دور میں ابھی باقاعدہ کلاسز کا آغاز نہیں ہوا تھا تو حافظہ پروین اور میں چند مزید کلاس فیلوز کے ساتھ اپنی نشستوں پہ براجمان تھے اور ایک دوسرے سے تعارف کا سلسلہ چل رہا تھا۔ بائیں طرف کی سیٹ خالی تھی تو راحیلہ بھی وہاں  آگئی اور اس سے جان پہچان کا سلسلہ شروع ہوا ۔  اس سے بات چیت کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ صاف گو، ملنسار اور باصلاحیت لڑکی ہے۔
ہماری کلاس میں لڑکیوں میں اس کا پہلا رول نمبر تھا تو رولز کے مطابق سرنے اسے ہمارے لیے جی آر مقرر کیا تھا۔ اس لیے راحیلہ کو کلاس میں اکثر سب جی آر کہہ کر بلاتے تھے۔ پہلے سمیسٹر میں اس سے اچھی سلام دعا تھی لیکن ہماری زیادہ اچھی دوستی دوسرے سمسٹر میں ہوئی۔ جب دوسرا سمیسٹر شروع ہوا تو ایک گروپ اسائنمنٹ میں میں بھی اس کے گروپ کی ممبر بن گئی۔ گروپ لیڈر نے اس گروپ کا نام "گروپ 19 "رکھا تھا۔جب میں نے گروپ 19جوائن کیا تو راحیلہ پہلی ممبر تھی جس نے مجھ سے کہا کہ ہم نئے ممبرکے لیے تمہارے نام کے بارے میں سوچ رہے تھےاور مجھے دل سے بہت خوشی ہوئی کہ تم اس کا حصہ بنی ہو۔ ہمارے ایک سبجیکٹ اگریکلچر کمیونیکیشن کی کلاس کی پہلی اسائنمنٹ میں اسٹوڈنٹس کو سر نے مختلف اناج پر ریسرچ کرنےکی پریزنٹیشن دی۔ ہمارے گروپ کو گندم پہ ریسرچ کر کے پریزنٹیشن دینے کا ٹاسک  ملا ۔ لہذا سرنے ہمارے گروپس کے نام اناجوں کے ناموں پر رکھ دیے۔ سو ایگریکلچر کمیونیکیشن کی کلاس  میں  ہمارے گروپ کا نام گروپ 19 سے وِیٹ گروپ رکھ دیا گیا۔ مگر ایسا صرف اس کلاس اور سمسٹر کی حد تک ہی رہا جبکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی ہم گروپ 19والےہی رہے۔
ہم نے  بہت سے پیپرز  پرچہ اسٹارٹ ہونے سے صرف چند گھنٹے پہلے  اس کی تیاری کر کے  دیے ہیں۔ یونیورسٹی کا لان ، لائبریری، راہداری یہ وہ جگہیں ہیں  جہاں بیٹھ کر ہم نے  بہت سے ٹاپکس کو  گروپ اسٹڈی کی صور ت کور کیا ہے۔انڈیویجوئل  اسائنمنٹس ہوں یا گروپ ورک ہم نے ساتھ مل کر ان پر بہت سر کھپایا ہے۔مجھے یاد ہے کہ ایگریکلچر کمیونیکیشن کی کلاس تھی اور سر نے اگلے ہی دن کے لیے اسائنمنٹ دے دی۔ اس اسائنمنٹ کی تیاری میں  انٹرنیٹ سے ریسرچ کرنا تھی۔ اب سوئے اتفاق کہ اس دن ہمارے گروپ کے کسی بھی ممبر تک سوائے میرے کسی نہ کسی مجبوری کے تحت انٹرنیٹ تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ یوں کہیئے کہ اس دن اس اسائنمنٹ میں سارا گروپ مجھ پر انحصار کرتا تھا۔ میں یونیورسٹی سے گھر آئی  اور ریسرچ شروع کر دی۔ ابھی  محض چند نکات نوٹ ہی کیے تھےتو انٹرنیٹ بند ہو گیا۔ بھائی نےانٹرنیٹ والوں کو کال کر کے کمپلینٹ کی  اور بتایا گیا کہ کچھ دیر میں نمائندے آ کر ٹھیک کر دیں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مگر انتظار اگلے دن یعنی اسائنمنٹ والے دن تک  بھی انتظار ہی رہا  اور میں اسی چکر میں اس دن یونیورسٹی بھی  تھوڑی تاخیر سے گئی کہ نیٹ ٹھیک ہو جائے اور میں اسائنمنٹ مکمل کر کے ہی جائوں لیکن انٹرنیٹ کی تکنیکی خرابی جوں کی تُوں رہی۔  گھر سے نکلتے ہی  پہلی کال میں نے راحیلہ کو کی کہ اس وقت یونیورسٹی کی کمپیوٹر لیب کی طرف بھاگو اور اس ٹاپک پہ جو بھی ملتا ہے جلدی سے نوٹ کرو۔ میں بس پہنچ رہی ہوں۔ اس نے کہا کہ یہ کام تو تمہیں کرنا تھا ۔میں نے جواب میں مختصراً اسے ساری بات بتائی۔  چند لمحے کو وہ بھی پریشان ہوئی کہ اب کیا ہو گا۔ مگر پھر کہنے لگی کہ اچھا تم پہنچو میں کمپیوٹر لیب میں  ہوں گی ادھر ہی آ جانا۔ میں ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوئی تو وہ مجھے راہداری میں ہی مل گئی۔ میں نے کہا چلو جلدی سے کمپیوٹر لیب چل کر ریسرچ پہ کام کریں۔ تو اس نے بتایا کہ کمپیوٹر لیب بند ہے۔ اس نے باقی گروپ ممبرز کو یہ بات بتائی تو میں نے وہ صفحہ نکالا جس پر کچھ نکات لکھے ہوئے تھے۔ ہم نے مل کر جلدی جلدی اس کو ڈسکس کیا اور پریزنٹیشن  کے دوران کچھ کام اپنی اپنی جنرل نالج سے ہی چلا لیا۔ یوں ہماری پریزنٹیشن بخیر و عافیت ہو گئی اور بعد میں ہم نے اس بات کو خوب انجوائے کیا۔
راحیلہ کی تحریریں دیگر جگہوں کے علاوہ ہماری قلمی  کاوش ویب سائٹ کے ذریعے بھی آپ لوگ پڑھتے رہتے ہیں۔ویب سائٹ قلمی کاوش کی ابتداتو  میں نے کر رکھی تھی مگر تکنیکی وجوہات کی بنا پر مجھے اسے دوبارہ شروع کرنا تھا ۔ جب ویب سائٹ پہ کام کرنا تھا تو میرے ذہن میں راحیلہ کا نام ہی پہلے آیا تھا اور غالباً  میں اپنی ایک تحریر میں پہلے بھی ذکر کر چکی ہوں  کہ یہ ویب سائٹ بناتے وقت کی سوچ نہیں تھی۔ بلکہ میں نے  دورانِ تعلیم ہی سوچ رکھا تھا کہ ڈگری کمپلیٹ کرنے کے بعد اگر اس شعبے میں اس سطح پر کوئی کام کیا تو راحیلہ کے ساتھ ہی کرنا ہے۔ کیونکہ وہ باصلاحیت ہے اور اچھا لکھتی ہے مجھے اس بات کا علم تھا۔ جب میں نے ویب سائٹ کے آئیڈیا  سے متعلق پہلی مرتبہ اس سے بات کی اور اس کی جانب سے بڑا مثبت ردِ عمل ملا تو میں نے خوشی کا  اظہار کرتے ہوئے اس سے کہا کہ مجھے بہت اچھا محسوس ہوا ہے کہ کوئی اتنا اچھا دوست میرے پاس موجود ہے جو میرے اس آئیڈیا اور بات کو سمجھا ہے۔یہاں مجھے  ایک اور بات بہت اہم لگتی ہے کہ زندگی کا کوئی بھی مقام یا شعبہ ہو ساتھ چلنے  اور کام کرنے کے لیے آپ کی اگلے بندے سے ذہنی ہم آہنگی بہت ضروری ہوتی ہے۔ جب تک آپ کو ایک دوسرے کی سمجھ نہیں آتی  آپ کسی بھی پراجیکٹ یا کام کو ایک ساتھ لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ تو بس راحیلہ کے ساتھ بھی  میرا کچھ ایسا ہی معاملہ تھا   کہ بہت سے معاملات میں اسے میری اور مجھے اس کی سمجھ آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج آپ  تک ہماری قلمی کاوش علینہ ظفر اور راحیلہ کوثر کی مشترکہ کوششوں  کی بدولت پہنچ رہی ہے۔
آج جون کی 6تاریخ ہےاور یہ دن راحیلہ کی سالگرہ کا دن ہے۔ پیاری راحیلہ !
یہ بے خودی یہ لبوں کی ہنسی مبارک ہو
تمہیں سالگرہ کی خوشی مبارک ہو
 تمہارے ساتھ 2011سے2020تک کا سفر بہت اچھا رہا ہے اور امید ہے کہ جب تک زندگی ہے یہ یونہی برقرار رہے اور دوستی کے ہر دس سال مکمل ہونے پر ہم ایسے ہی دس سال گزر جانے کا تذکرہ کرتے رہیں۔قلمی کام کو جاری رکھنے میں تھوڑے بہت جو بھی مسائل آتے ہیں تم ان کو دور کرتی رہو اور ہمیں تمہاری تحریریں پڑھنے کو ملتی رہیں ۔میری دعا ہے کہ اللہ خوشیوں کو تمہارے دَر  پہ قائم رہنے والی راہ دکھائے  اور تمہاری ہر دعا کو قبول فرمائے، آمین۔

از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟