بِنتِ ظفر کے قلم سے

میں نے بہت سی ایسی تحریر لکھیں جن میں اکثر اپنے والد کا ذکر کیا لیکن کوئی ایسی تحریر میں اب تک نہیں لکھ پائی جس کا عنوان صرف میرے والد پر ہو۔ بہت عرصے سے کسی ایسے موقعے کی تلاش تھی کہ والد کے حوالے سے کوئی باقاعدہ تحریر لکھ سکوں۔ آج21 جون 2020 بروز اتوار ہے۔ آج فادرز ڈے ہے تو اس سے بہتر تحریر لکھ کر اپ لوڈ کرنے کا موقع کوئی نہیں ہو سکتا۔ میرے والد صاحب اُن خیالات کے حامی لوگوں میں شامل ہیں جن کے نزدیک رشتوں سے محبت کے اظہار کا محض ایک دن ہی مقرر نہیں ہوتا بلکہ ہر دن اور ہر لمحہ ہی محبت کے اظہار کا ہوتا ہے۔ اُن کی یہ بات ٹھیک بھی ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ رسمِ دنیا بھی ہے، موقع اور دستور بھی، تو میں بھی اسی پر چلتے ہوئے آج یہ تحریر آپ سب سے شیئر کر رہی ہوں۔
میرے پاپا ایک محبت کرنے والے حساس، زندہ دل اور ملنسار انسان ہیں۔ انہی خوبیوں کی بدولت وہ اپنے بے حد وسیع حلقہ احباب میں ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر اللہ انسان کو پہلی اولاد بیٹی سے نوازے تو وہ اپنے باپ سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ شاید میرا یہ ماننا کچھ اس لیے بھی ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک جب بھی میرے والد صاحب کے کسی جاننے والے ایسے شخص سے ملاقات ہو جائے جو مجھ سے پہلی بار مل رہا ہو تو اکثر مجھے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے، "آپ ظفر صاحب کی بیٹی ہیں نا آپ تو فوراً پہچان لی جاتی ہیں کیونکہ آپ اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتی ہیں۔" اور پھر اس کے بعد دوسری جانب سے میرے پاپا کے لئے جو تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں اس پر تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ تب ایک ایسے خوشگوار احساس میں گھِر جاتی ہوں جسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ یہ جان کر اچھا لگتا ہے کہ بہت سے لوگ اُن سے اتنی محبت کرتے ہیں اور اپنے دل میں اُن کے لئے اتنی عزت و احترام اور عقیدت رکھتے ہیں۔
ظفر اقبال صاحب کی شخصیت بطور والد میرے نزدیک یوں ہے کہ بیٹیوں کے لیے دل میں اتنی محبت اور شفقت رکھنے والے باپ بھی قسمت والوں کو نصیب ہوتے ہیں اور یقیناً میں ایک خوش قسمت بیٹی ہوں کہ میں ایسے پیارے اور خوبصورت بادشاہ کی شہزادی ہوں۔ ہر انسان کو اپنی اولاد شہزادے اور شہزادیوں کی طرح عزیز ہوتی ہے اور ہر کسی کے لئے باپ بادشاہ کی مانند ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو ہمیشہ زمانے کی گرم، گرد آلود ہواؤں اور فضائوں سے بچا کر اونچی مسند اور ٹھنڈی چھائوں فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خدا جانے وہ کیسے باپ ہوتے ہیں جو بیٹیوں کی پیدائش پر افسردگی کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں میرے والد صاحب بھی ہمارے بچپن میں راتوں کو ہماری والدہ کے ساتھ ہمارے لیے جاگے ہیں اور اب بھی اُن کو گھر آ کر تھوڑی دیر بعد ہی اگر کبھی ہم دونوں بہنوں کی غیر موجودگی کا احساس ہونے لگے تو ایسے میں ہم نے ہمیشہ ہی اُن کومتلاشی نگاہیں لیے ہمارے نام کی صدائیں دیتے ہوئے پایا ہے۔

میری والدہ نے ایک دن مجھے میرے بچپن کی بات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں بہت چھوٹی تھی تو ایک مرتبہ ہم لاہور سے جہلم اپنے ددھیال گئے تھے وہاں ہم سب بچے دادا کے گھر ٹی وی لاؤنج میں کھیل رہے تھے جبکہ بڑے سب ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔بڑی پھوپھو وقفے وقفے سے لاؤنج میں آکر بچوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں کہ کھیل کھیل میں اللہ نہ کرے کوئی حادثہ ہو جائے۔اس وقت وہاں سب سے چھوٹا بچہ میں ہی تھی تو پھپھو نے میرے بارے میں سب کو آکر تاکید کی کہ میری یہ بھتیجی سب سے چھوٹی ہے اس کا سب بچے خیال رکھو ورنہ خدانخواستہ اگر اسے کوئی چوٹ وغیرہ لگ گئی تو میرے بھائی یعنی اس کے پاپا نے تم سب سمیت ہم میں سے بھی کسی کو نہیں چھوڑنا۔
بہت سے لوگ پاپا اور میرے درمیان رشتے کی نوعیت سے بالکل لاعلم ہیں۔ آپ میں سے بہت سارے لوگ نہیں جانتے کہ دنیا کو بظاہر سنجیدہ نظر آنے والی علینہ ظفر جب اپنے والد ظفر اقبال صاحب کے ساتھ ہوتی ہے تو وہ اُس علینہ سے قطعی مختلف ہوتی ہے جسے سب لوگ عموماً جانتے ہیں۔ اپنے والد سے محبت میں خون کی کشش والا معاملہ اپنی جگہ، لیکن مجھے ہر اُس شخص سے اُنسیت ہے جو میرے ملک کا نقصان ہوتا دیکھ کر اسے یوں برداشت نہ کرے جیسے کوئی اپنا ذاتی نقصان ہو۔ پاپا اور میری گفتگو کا موضوع زیادہ تر سیاسی اور ملکی حالات پر مبنی ہوا کرتا ہے۔ میرا تھوڑا بہت سیاسی شعور اور خبروں کی جانب رجحان انہی کی بدولت ہے۔ جب وہ کام کے دوران گھر نہیں ہوتے تو میڈیا پہ خبریں دیکھتے اور سنتے ہوئے پاپا کو کال ملا کر میں رپورٹر کا کردار بھی ادا کر رہی ہوتی ہوں۔ اگر کبھی ہمارے گھر کے باورچی خانے سے پاپا کی آواز میں میرے نام کی پکار آپ کی سماعتوں تک پہنچ رہی ہو تو جان لیجئے کہ آج وہ کھانا خود پکا رہے ہیں مگر میرے بغیر انہیں کھانا پکانے کی تسلی نہیں ہوتی اس لیے کھانے کی تیاری میں میرا ساتھ موجود ہونا وہ لازمی سمجھتے ہیں۔ پاپا خود بہت اچھی کوکنگ بھی کر لیتے ہیں لیکن مصروفیت کے باعث ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ باورچی خانے کا رخ کریں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اسی حوصلہ افزائی کے باعث آج کھانا پکانے میں تھوڑی بہت دلچسپی رکھتی ہوں۔ میں سوشل میڈیا پر مختلف کھانوں کی ترکیب دیکھ کر انہیں بھی دکھا رہی ہوتی ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے موبائل کی ایپ سے دیکھ دیکھ کر انہیں موسم کاحال بتانا بھی اچھا لگتا ہے۔ وہ میری تحریریں بڑے اشتیاق اور غور سے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ وقت کی کمی میں کبھی میری تحریر نہیں پڑھتے بلکہ فراغت میں پڑھتے ہیں تاکہ توجہ سے پڑھ پائیں۔ سی بی(بھائی طلحہ) جب انہیں میرے آرٹیکلز اتنے انہماک سے پڑھتے دیکھتا ہے تو مجھے چھیڑتے ہوئے کہتا ہے کہ پاپا پڑھنے کے ساتھ ساتھ تمہارے لکھے ہوئےجملے یاد بھی کر رہے ہوتے ہیں تاکہ اگلی بار ضرورت پڑنے پر تمہاری کوئی غلطی پکڑ سکیں یا جب کسی سے اس کی تعریف سنیں تو تعریف کرنے والے کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔
میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو اُن سے عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ اُن کے لیے اپنی محبتوں کو قائم رکھیے اور دعا کیجئے کہ اللہ انہیں صحت والی زندگی عطا فرمائے اور اُن کا سایہ ہم سب پر سلامت رکھے،آمین۔ جب اولاد حق پر اور دوسرے اس کے مخالف ہوں تب اگر اس کے لیے والدین کسی مضبوط چٹان کی مانند کھڑے ہوجائیں تو اولاد پر انگلی اُٹھانے کی کسی کی جرات نہیں ہوتی۔ اولاد کوئی مثبت یا کچھ بھی اچھا کام کرنا چاہتی ہے تو اس کا اعتماد بڑھایئے اور پورا ساتھ دیجئے۔ اگر کسی قدم پر وہ نا کام ہو جائے تو اسے اس درجہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے برا بھلا مت کہیئے کہ کوئی اچھا عمل کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی وہ اپنے والدین کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر زندگی میں کبھی کوئی کامیابی حاصل نہ کر پائے۔
از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟