آٹو گراف سے جڑی ایک یاد



آٹو گراف سے جڑی ایک یاد

کل جب میں اپنی کچھ کتابوں کو الماری میں ترتیب سے رکھ رہی تھی تو  چند کتابیں کھنگالتے ہوئےمجھے وہاں سے میری  ایک آٹو گراف ڈائری مل گئی جس میں نامورشخصیات کے آٹوگرافس موجود ہیں۔میں نے اس ڈائری کا پہلا صفحہ کھولا تو اس پر میرے بہت پسندیدہ شاعروں میں سے ایک مشہور شاعر امجد اسلام امجد کا آٹوگراف درج تھا۔ یہ وہ  آٹوگراف ہے جو میں نے زمانہ طالبعلمی میں امجد صاحب سےتب حاصل کیا تھا،جب ہمارے کالج میں منعقد کردہ اردو مشاعرے کے ایک مقابلے میں دیگر شخصیات کے علاوہ وہ بھی بطورمہمانِ خصوصی شریک ہوئےتھے۔ اس وقت کالج انتظامیہ نے مہمانِ خصوصی کےنام کا اعلان پہلے سے نہیں کر رکھا تھا ، اس لئے بہت سی طالبات یہ نہیں جانتی تھیں کہ امجد اسلام امجد اس دن کالج میں منعقد کردہ مشاعرے کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔امجد صاحب کو اچانک وہاں دیکھ کر ایک خوشگوار احساس غالب آ  گیا۔آج یہ آٹوگراف دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آگیا جب میں نے امجد صاحب سے یہ آٹوگراف لیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب میں "حمایتِ اسلام خواتین کالج " میں  بی اے تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی۔ مشاعرے کی اُس تقریب کا  آغاز ہماری ایک کلاس فیلو حافظہ رملہ نےتلاوت کلام پاک سےکیا تھا۔ وہ تقریب چونکہ اردو میں تھی تو اس تلاوت کا ترجمہ بھی اردو ہی میں تھا۔ وہ آیت اور اس  کا ترجمہ مجھے ٹھیک سے تو یاد نہیں ہے لیکن اگر میں غلط نہیں ہوں تو اس کا مفہوم کچھ ایسا تھا کہ سورج اور چاند اپنی جگہ اللہ کے حکم سے ساکن ہیں اور اللہ کے حکم سے ہی اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ جب رملہ اردو ترجمہ پڑھ کر حاضرین ِ محفل کو سُنا رہی تھی تو اب شائد اس کی اردو اتنی اچھی نہیں تھی یا پتا نہیں کیا مسئلہ تھا  اس نے لفظ "ساکِن" کو انگریزی میں "فِکس "کہہ دیا۔تب ہال میں ہم نے امجد صاحب کو بے اختیاری کے عالم میں قہقہہ لگا کر ساتھ بیٹھے دوسرے مہمان ِ خصوصی سے مخاطب ہو کر یہ کہتے سنا تھا،" بچی کہہ رہی ہے فِکس ہیں۔ ہاہاہا! اردو ترجمہ پڑھتے پڑھتے اچانک  انگریزی لفظ بول دیا اس نے۔"تب مجھے یاد ہے رملہ کی زبان سے وہ لفظ سن  کر ایک لمحے کو تو میں بھی چونک گئی تھی۔ اور جب امجد صاحب کو سُنا تو بمشکل اپنی ہنسی ضبط کر پائی تھی۔

 آج سے کچھ سال قبل جب ہم کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو سیلفی نامی ٹرینڈ جو کہ آج بے حد عام ہو چکا ہے، اس وقت ابھی مقبول نہیں ہوا تھا اور ہمارے کالج میں کسی بھی اسٹوڈنٹ کو موبائل فون اپنے ساتھ لانے کی اجازت نہیں تھی لہذا امجد صاحب کے ساتھ ذاتی طور پر تصویر بنانا ناممکن تھا۔ مشاعرہ کی تقریب جیسے ہی  اختتام پذیر ہوئی توبہت سی طالبات نے اسٹیج پر پہنچ کر  امجد صاحب سے ملنا اور ان کا آٹوگراف حاصل کرنا چاہا مگر کالج کی پرنسپل ڈاکٹر عذرا امتیاز صاحبہ نے بہت زیادہ ہجوم کے باعث بدنظمی ہو جانے کے خدشے کی بنا پرطالبات کو آگے بڑھنے سے منع کر دیا تھا۔ امجد صاحب جب ہال سے نکل کرباہر جا رہے تھے تو تب بھی کچھ  طالبات کا ہجوم ان کے پیچھے پیچھے تھا۔امجد صاحب کو پرنسپل صاحبہ کے دفتر چائے کے لیےلے جاجایا گیا تو ہم سب ان کے دفتر کے باہر کھڑے ہو کر ان کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگے۔اتنی دیر میں چھٹی بھی ہو چکی تھی اور گھر واپسی کے لیے ڈرائیور باہر کھڑا ہمارا منتظر تھا۔ہم نے اسے  کچھ لمحے ابھی وہیں ٹھہرنے کو کہااور دوبارہ پرنسپل صاحبہ کے دفتر کے باہر امجد صاحب کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔میرے آنے پر مجھے معلوم ہوا کہ تھوڑی دیر پہلے پرنسپل صاحبہ کے سیکرٹری کے ذریعے امجد صاحب کی ہدایت پر وہاں کھڑی طالبات سے ان کی ڈائریاں آٹوگراف کے لیے دفتر  کے اندر ہی منگوا لی  گئی تھیں تاکہ ان طالبات کو وہاں کھڑے رہ کر پریشانی نہ ہو ۔میرے آنے سے قبل ہی  کئی طالبات آٹو گراف کے لئے اپنی اپنی ڈائریاں پرنسپل صاحبہ کے دفتر میں بھجوا چکی  تھیں۔اس لمحے مجھے تھوڑی سی  مایوسی ہونے لگی کہ امجد صاحب سے ملاقات نہ ہوپائی اور اب تو شاید میں ان کا آٹوگراف بھی حاصل نہیں کر سکوں گی۔لیکن اس کے باوجود پھر بھی دل میں ایک موہوم سی امید باقی تھی۔ اس وقت آٹوگراف ڈائری میرے پاس موجود نہیں تھی، سو میں نے اپنی نوٹ بک کھولی اور اس میں سے ایک صاف ستھرا  ورق نکال کر الگ کیا۔جب امجد صاحب ہمارے   کالج  کے اسٹاف کے کچھ لوگوں کے ساتھ پرنسپل کے کمرے سے باہر آئے تو میں نےاسے اپنی نوٹ بک پہ رکھ کرقلم سمیت ان کی جانب "سر پلیز" کہہ کربڑھا دیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے وہ صفحہ،قلم تھاما  اور آٹو گراف دے کر مجھے واپس کردیا اور میرے سر پر دستِ شفقت رکھ کر  دعا دی۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو اس کے بعد وہ اپنی گاڑی کی جانب چل دیے اور میں خوشی کے عالم میں کالج گیٹ عبور کرتے ہوئے باہر آئی جہاں ڈرائیور ہمیں گھر ڈراپ کرنے کے لئے کھڑا تھا۔ گھر آ کر میں نے  اُس کاغذ کوآٹو گراف والے حصے سے کاٹ کر الگ کیا اور اپنی آٹوگراف ڈائری کے پہلے صفحےپر امجد صاحب کےاِس آٹوگراف کوچسپاں کر دیا۔



از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟