صراحی ، تحفہ منجانب صحرائی
اردو
افسانہ نگار طارق بلوچ صحرائی کو افسانہ نگاری کی دنیا میں بہت اچھے اور عمدہ
افسانوں کے خالق کے طور پر جانا جاتا ہے۔میں نے بہت سے رسائل میں شائع ہونے والے
کچھ باقاعدہ سلسلوں میں ان کی کتابوں سے لیے گئےچند مختلف اقتباس کو پڑھا ہےجنہیں
قارئین انتخابات کے طور پر بھیجتے ہیں۔ اس
کے علاوہ سوشل میڈیا پہ لوگوں کی بہت سی تعداد بھی ان کی تحریروں سے اخذ شدہ اقتباسات کو شیئر کر رہے ہوتے ہیں۔ میں جب بھی
طارق صحرائی صاحب کی کوئی تحریر پڑھتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے ایک
طویل عرصہ بانو آپا اور اشفاق احمد صاحب کی شخصیات اور تحریروں میں رہ کر گزارا ہے۔میرے والد اور طارق بلوچ
صحرائی صاحب کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ ہے، میری دعا ہے کہ اللہ اس محبت
کو ہمیشہ قائم رکھے، آمین۔صحرائی صاحب کے بیگم اور بچوں سےجب پہلی مرتبہ
ہماری ملاقات ہوئی تو وہ سب بھی بہت محبت سے ملے۔ طارق صحرائی
صاحب جب بھی ملتے ہیں میری تحریروں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
موبائل گیلری میں آج پرانی تصویریں
کھنگالتے ہوئے ایک تصویر نظر سے گزری تو طارق بلوچ صحرائی صاحب سے ہونے والی ایک
ملاقات یاد آگئی۔کچھ عرصہ پہلےعشا کی اذان سے تھوڑی دیر قبل باہر ڈور بیل بجی تو
سی بی(بھائی طلحہ) نے دروازہ کھولا اور آنے والی شخصیت کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر
ہمارے پاس کمرے میں آیا جہاں میں، مما اور انابیہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف
تھے۔اس نے ہمیں صحرائی صاحب کے آنے کی اطلاع دی وہ پاپا کے ساتھ کسی کام کے سلسلے
میں کہیں جانے کے لئے آئے تھے۔صحرائی صاحب چونکہ طے شدہ وقت سے تھوڑی دیر پہلے ہی
آ گئے تھےاور پاپا اس وقت گھر پہ موجود نہیں تھے تو جب تک وہ واپس نہیں آئے اس وقت
تک سی بی صحرائی صاحب کوکمپنی دیتا ہوا ان کے ساتھ گپ شپ کرتا رہا، پھر اس دوران
پاپا بھی آ گئے۔سی بی تھوڑی دیر بعد مجھے تلاش کرتا ہوا میرے کمرے میں چلا آیا اور
کہنے لگا کہ "صحرائی انکل تمہارے لئے ایک بہت خوبصورت سا تحفہ بھی ہمراہ لائے
ہیں اور پاپا تمہیں ڈرائنگ روم میں بلا رہے ہیں، صحرائی انکل سے تم بھی مل
لو۔" میں اپنا کام چھوڑ کر انہیں ملنے ڈرائنگ روم میں چلی آئی۔رسمی سلام دعا
کے بعد خیریت دریافت کی اور کچھ کتب بینی، مطالعہ، کالم نگاری، کتاب اور قلم سے
وابستگی پر مبنی گفتگو ہوئی۔میں نےوہاں میز پر سجی خوبصورت سی صراحی کو دیکھا تو
صحرائی صاحب نے مجھ سے کہا ، "یہ آپ کے لئے لایا ہوں، یہ صراحی ہاتھ سے بنی
ہے جو کہ خاص ڈی جی خان سے لائی گئی ہے۔" مجھے وہ بہت پسند آئی میں نے ان کا
شکریہ ادا کیا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ پاپا کے ساتھ چلے گئے۔ان کے جانے کے بعدجب میں
اس صراحی کو تھامے اپنے کمرے میں سجانے کے لئے لے جارہی تھی توسی بی نے مجھے روک
کر مجھ سے بڑے مزاحیہ سے انداز میں کہا، "مجھے لگتا ہے کہ تم اب اس ملاقات
اور صراحی پر بھی کوئی تحریر لکھ ڈالو گی۔"اس وقت میں نے اپنی حیرت چھپا کر
اسے دیکھا پھر ہنستے ہوئےاس سے کہا ،"آئڈیا بُرا نہیں ہے۔" اورمیں آج
بھی اپنے کمرے میں سجی اس صراحی کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ کر مسکرا رہی ہوں کہ سی بی کو
میرے اس ارادے کا پہلے سے علم کیسے ہو گیا۔
از
قلم، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں