تعارف


بچپن میں ایک ادھیڑ عمر اخبار فروش بابا جی اپنی سائیکل لیے ہمارے محلے کے مختلف گھروں میں اخبار پہنچانے آیا کرتے تھے۔گرمی کی چھٹیوں میں ہماری والدہ ان سے بچوں کے مختلف رسائل خرید کر رکھ لیا کرتی تھیں اور ہوم ورک مکمل ہونے پر فارغ وقت میں ہمیں پڑھنے کو دیتی تھیں ۔لِونگ روم میں ہم تینوں بہن بھائی کو بٹھا کر وہ رسالےہمارے ہاتھ میں تھما دیتیں اور پھر ہمیں باری باری کسی کہانی کو بلند آواز میں پڑھنے کو کہتیں۔مطالعہ کی عادت مجھے وہیں سے ہوئی۔لہذا مطالعہ میں دلچسپی اور میرے ادبی رجحان کا سہرا میری والدہ کو جاتا ہے۔لکھنے کا شوق بھی مجھے اپنی والدہ سے وراثت میں ملا ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ انہیں رات کے وقت لکھنے کی عادت تھی ۔ لکھتے لکھتے جب رات کافی بیت جاتی تو میرے نانا جان یعنی ہماری والدہ کے والد صاحب کی کبھی رات کے کسی پہر آنکھ کھلتی تو ہماری والدہ کے کمرے میں کم روشنی والے بلب جلنے کا احساس ہوتا۔ وہ اٹھ کر ان کے پاس کمرے میں آتے اور اتنی کم روشنی میں لکھنے پر بینائی متاثر ہونےکے نقصانات بتا کر دن کے اجالے میں لکھنے پڑھنے کی تاکید کرتے۔ میں نے سُن رکھا ہے کہ تاریخ خود کو ضرور دہراتی ہے اور ہمارے ہاں تاریخ کچھ اس انداز میں اپنے آپ کو دہراتی ہے کہ اب میں بھی اکثر لکھنے پڑھنے کا کام کم روشنی میں کر رہی ہوتی ہوں تاکہ میری وجہ سے کسی کی نیند اور آرام میں خلل نہ ہو۔ جبکہ میرے پاپا مجھے اسی انداز میں اکثر کم روشنی میں بینائی متاثر ہونے کے خدشے سے ایسے ہی ٹوک دیتے ہیں جیسے نانا جان مما کو ٹوکتےتھے۔
آج سے چند سال پہلے ٹی وی چینل پر مزاح نگار ڈاکٹر محمد یونس بٹ کا لکھا گیا مزاحیہ کھیل "فیملی فرنٹ"نشر ہوتا تھا جسے ہم بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے ۔ اس ڈرامے میں بولے جانے والے منفرد جملے جو بے ساختہ مسکرانے پر مجبور کر دیتے تھے، میں ان سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت متاثر ہوتی تھی۔یہ اس دور کی بات ہے جب میں اسکول میں چوتھی یا پانچویں جماعت کی طالبہ تھی اور عمر کے اس حصے میں اکثر بچے" گھر گھر "کے نام سے کھیل کھیلا کرتے ہیں۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک خیال ابھرا کہ کیوں نہ فیملی فرنٹ جیسی ہی کوئی تحریر لکھ کر اسے اپنے کھیل میں شامل کر کے اس" گھر گھر" کومزاح کا رنگ دیا جائے۔چنانچہ میں نے کچھ الٹے سیدھے جملے لکھ کر اپنے بھائی، بہن اور کزنز کو ساتھ ملا کر کہا کہ اس کھیل میں تم لوگ اپنی اپنی باری آنے پر یہ جملے بولو، سو سب نے ایسا ہی کیا۔ وہ ایک ایکٹ کی صورت اختیار کر گیا تھا جسے میں نے اپنے تئیں ڈرامے کا نام دے دیا، حالانکہ اس وقت مجھے قطعی طور پر ڈرامہ کا مفہوم بھی معلوم نہ تھااور میں اس بات سے بھی مکمل طور پہ لاعلم تھی کہ تحریر لکھنا یا اسکرپٹ رائٹنگ کیا ہوتی ہے؟ حتی کہ میں نے کبھی زندگی میں لکھا ہوا کوئی اسکرپٹ بھی نہیں پڑھا تھا۔بس یوں وہ میری زندگی کی پہلی تحریر بن گئی۔مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہا ہے کہ میرے قلمی سفر کی پہلی تحریر چاہے وہ بے تحاشا اصلا حی توجہ کی طالب سہی لیکن کاش وہ بچپن کی سنہری یاد کے طور پہ میرے پاس محفوظ ہوتی۔جبکہ کچھ عرصہ پہلے میرے بچپن کے لکھے ہوئے ایسے ہی اوٹ پٹانگ سے چند اسکرپٹ میرے ہاتھ لگے جسے پڑھ کر اس قدر ہنسی آئی اور سوچتی رہی کہ یہ میں کیا لکھتی رہتی تھی۔آج بھی کبھی وقت نکال کر پرانی تحریریں پڑھتی ہوں تو غلطی کا ازالہ ہو جاتا ہے اور انسان اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتا ہےاس لئے میں نے اپنی وہ ساری ابتدائی تحریریں ردی کی ٹوکری کی نذر نہیں کیں تاکہ میں اپنی ان غلطیوں سے سیکھتی رہوں۔ لہذا یوں کہا جا سکتا ہے کہ میری قلمی کاوش کا آغاز بچپن میں ہو چکا تھا۔
ویب سائٹ بنا کر بلاگ لکھنے کا خیال کیسے آیا؟ صحافت کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوئی اخبار یا میگزین ضرور چلانا ہے۔ تعلیم  مکمل کرنے کے بعد میں نے استادِ محترم سے اس بات کا ذکر کیا تو وہ فرمانے لگے کہ تمہارے پاس لکھنے کا تجربہ ہونا چاہیئے سو اپنی تحریریں پہلے مختلف اخبارات میں لکھ کر بھیجو۔میں نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے کچھ بھی ذکر کیے بغیر خاموشی سے ان کے مشورے پر عمل کیا ۔ پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر تحریروں کا رواج عام ہونے لگا تو  میں بھی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر اپنی تحریریں شیئر کرنے لگی۔  اس تمام عرصےمیں ایک بات کبھی نہیں بھولی جس کا تذکرہ میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں کیا اور جس کے متعلق یہ بات ہے شاید وہ بھی آج یہاں اپنے نام سمیت  یہ پڑھ  کر حیران ہو۔ جب صحافت کی تعلیم کے دوران  یونیورسٹی میں چند با صلاحیت دوستوں سے ملاقات ہوئی۔تب میں نے سوچ لیا تھا کہ اخبار  یا میگزین والے پلان میں میری ٹیم میں کوئی دوسرا ہو نہ ہو مگر  پیاری دوست راحیلہ کوثر تو ضرور ہو گی۔آج کے دور کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں نے ویب سائٹ پر کام کرنے کا سوچا اور راحیلہ کے علاوہ کوئی دوسرا نام سب سے پہلے میرے ذہن میں نہیں آیا۔ میں نےاس سے ویب سائٹ کی بات کی کافی دن تک ہم اسے ڈسکس کرتے رہے پھر بعد میں دونوں کی مشترکہ رائے سے ہم نے یہ بلاگ بنانے کا سوچا۔ہماری یہ کوشش ہو گی کہ اس ویب سائٹ  کی بدولت اپنی قلمی کاوش کے ذریعے مختلف موضوعات پر مبنی اپنے خیالات اور روز مرہ زندگی سے حاصل کردہ کچھ واقعات و مشاہدات قارئین تک پہنچا سکیں ۔میں امید کرتی ہوں کہ آپ سب قارئین اپنی قیمتی آراء سے نوازتے رہیں گےاور میری آپ سے اس بلاگ ویب سائٹ اور اس پہ موجود تحریریں دیگر احباب کو بھی متعارف کرانے کی گزارش ہے۔
از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟