8اکتوبر2005زلزلہ تھا کہ قیامت گزری




تحریر : راحیلہ کوثر
8 اکتوبر 2005 کوئی زلزلہ تھا کہ
  اس روز اہل کشمیر پر قیامت ٹوٹی
پڑے رہے جنازے لاکھوں روئے زمیں پر
کہ دفنانے والوں پر بھی قیامت ٹوٹی
بے سرو ساماں کھلے آسماں تلے وہ جینا
 کہ جینے والوں پہ پھر ہر شب قیامت ٹوٹی
  
8اکتوبر 2005 بروذ ہفتہ ، 3رمضان المبارک،1426 ہجری
پاکستانی سٹینڈرڈ ٹائم08:50:39  کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات  اور آذاد کشمیر پر پاکستان کی تاریخ کا بد ترین   زلزلہ آیا جس کی شدت 7.6تھی۔ٹی۔وی اسکرین پر ہر جگہ اسلام آباد ، F/10 میں واقع مارگلہ ٹاور کی تباہ ہونے والی منازل اور ریسکیو کے  منظر  ہی خبرں کا کل مرکز تھے۔اس وقت تک پاکستان کی عوام ان کے دکھ میں ہی آبدیدہ تھی کسی کو بھی علم نہ تھا کہ دکھوں کے پہاڑ  اسلام آباد سے آگے مظفر آباد ،مانسہرا ، بالاکوٹ، راولاکوٹ، پٹگراں اور باغ میں کس شدت سے ٹوٹ چکے ہیں۔  تا ہم اگلےروز ٹی ۔وی پر صرف کشمیر کی تباہ حالی زمیں بوس گھر اور غم سے نڈھال بے سروسامان لوگوں کے احوال کا منظر نامہ درج تھا۔
میرے والد صاحب اس وقت تک کشمیر پہنچ چکے تھے کیونکہ ہمیں زلزلے کی تباہ کاریوں کا علم اپنے اہل وعیال سے موبائیل فون کے ذریعیے ہو چکا تھا۔ مگر سفر اسقدر دشوار گزار ہو گا اس بات کا اندذہ ان کو بھی نہیں تھا ۔کوہالہ کا پل اس زلزلے سے شدید متا ثر ہوا تھا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا باقی ماندہ راستہ والد صاحب اور چند کزنز نے  جو ان کے ہمراہ تھے پیدل ہی کاٹا۔جیسے تیسے مصائب کا سامنا کر کے والد صاحب 
اپنے آبائی گھر کومی کوٹ رسگراں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
آبائی گھر میں صرف دڑاڑیں ہی آہیں تھیں مگر بیلے میں بننے والا تین بھائیوں کا مشترکہ گھر زمین بوس ہو چکا تھا۔ ہمسائیوں کے گھر میں ماں بچوں سمیت گھر میں ہی دفن ہو چکی تھی۔  ہزاروں  ماوں کے بچے اس روز اسکول سے نہ لوٹے اور کئی لوٹنے والوں کو ماں نہ ملی۔کسی کا بیٹا تو کسی کا سہاگ اس روز کام سے نہ لوٹا کئی چشم اشک بار اور انتظار میں سر شار تھیں ہر اجنبی آہٹ بھی مانوس معلوم ہوتی کسی کو لاش ملی اور کسی کو تاحیات کے انتظار کا کرب۔ ہمارے خاندان نے بھی یہ کرب  ایک ماہ تک محسوس کیا جب میری بڑی پھوپھو کے بیٹے عبدل القدیر کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔
درود تنجینا ہر شام کشمیر ، لاہور اور راولپنڈی  میں پڑھا جاتا سورہ یسین اور قرآن کی تلاوت کی جاتی۔ ہر ہاتھ ان کے اور دیگر بچھڑ جانے والوں کے ملنے کی دعا کے لئیے اٹھتا۔ہر  کیمپ ہر مقام کی تلاش میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ وہ عید ہمارے والدین نے اپنے کشمیر میں اپنے غمزدہ بہن بھائیوں میں گزاری ۔ بال آخر کسی سے سراغ ملا کہ فلاں شخص نے کومی کوٹ کے لڑکے کو دیکھا ہے اس شخص سے مزید تحقیقات کیں اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر سب گامزن ہوگئے۔ عید الفطر کے دوسرے روز ہمیں عبدل قدیر کے ملنے کی اطلاع موصول ہوئی۔ ان کی لاش کشمیر کے علاقہ دھنی سے ملی  اب بے چینی صبر کا روپ دھاڑ چکی تھی۔ چونکہ اللہ کی یہی رضا تھی۔

اس زلزلہ میں تقریباً 80,000 افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔لاکھوں افراد ذخمی اور لاکھوں گھر زمین بوس ہو چکے تھے ۔اس قیامت خیز زلزلے کا مرکز مظفر آباد سے 20 کلومیٹر شمال مشرق میں تھا ۔مگر  درد کی تاثیر آج بھی دلوں میں جوں کی توں ہے۔ وادی آباد ہو چکی ہے کشمیر پہلے سے ذیادہ ترقی یافتہ بھی ہو چکا ہے اور بہت سے نئے پراجیکٹ زیر تعمیر بھی ہیں۔مگر آج بھی سب کی روح اس روز کو یاد کر کے کانپ اٹھتی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ زلزلہ نہیں ہم پر کوئی قیامت ہی گزری تھی۔اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین!

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟