خاندانی بزرگوں کا دن
آج گوگل کا ویب پیج کھولا تو وہاں ڈوڈل دیکھ کر میں نےاس پر
کلک کیا۔ کلک کرتے ہی معلوم ہوا کہ آج "گرینڈ پیرنٹس ڈے"ہے، یعنی دادادادی اور نانانانی کا دن منایا جا رہا
ہے۔ یہ بات جان کر خوبصورت پل یاد آتے ہی چہرے پربے ساختہ مسکراہٹ بکھر گئی اور آنکھیں
نم بھی ہو گئیں۔ابا جی(دادا جان)، دادی جان اور ابی جان (ناناجان)، اماں جان (نانی
جان) اس قدر شدت سے یاد آئے جسے بیان کرنا شاید میرے لیے مشکل ہے۔اپنے خاندان کے
بزرگوں سے جڑی ان کے اور میرے درمیان بہت
سی ایسی باتیں، واقعات اور گفتگو ہیں
جنہیں کوئی دوست یا خاندان کا کوئی دوسرا فرد بھی قطعی نہیں جانتا۔ شاید لوگوں کی لاعلمی کی وجہ
یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دوسروں نے میرے اور میرے بزرگوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت
پر دھیان نہیں دیا اور نہ ہی میں نے کبھی ہمارے آپس کے رشتے کو کسی اور کے سامنے بیان
کیا۔میں کوشش کروں گی کہ آج کے دن کے حوالے سے یہ تحریر لکھ کر اپنے اِن پیارے
بزرگوں کے نام کروں۔
میں بہت چھوٹی تھی جب میری دادی کا انتقال ہوا، اس لیے میرے
ذہن میں ان کی بس ہلکی ہلکی سی جھلک ہی موجود ہے۔ مگر میری والدہ بتاتی ہیں کہ وہ
مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں اور مجھے میرے اصلی نام کی بجائے"نینو" کہہ
کر بلاتی تھیں۔ پاپا انہیں بہت یاد کرتے ہیں اور جب بھی میں کھانے میں کوئی پکوان
بناؤں تو کہتے ہیں کہ تم نے تو مجھے پھر سے ماں کی یاد دلا دی ہے وہ ایسے ہی ذائقے
دار کھانا بنایا کرتی تھیں۔ ابا جی کے بارے میں جب بھی سوچتی ہوں تو مجھے میرے ملک
کی حفاظت کے لیے سرحد پہ کھڑا ایک فوجی جوان ذہن میں آتا ہے۔وہ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود
بھی چاک و چوبند شخص تھے۔ وہ اکثر دور دراز کا سفر سائیکل چلا کر طے کرتے۔ کئی کئی
میل پیدل ہی چل لیتے۔ جب وہ چلتے تو یوں لگتا جیسے آرمی کا کوئی جوان چل رہا ہو۔
ان کا فوج کے شعبے سے کوئی تعلق تو نہیں تھا مگر مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا رہا ہے
کہ ابا جی اگر کسی اور شعبہ میں ہوتے تو یقیناً پاک فوج میں اپنی خدمات سر انجام
دے رہے ہوتے۔پابندیء وقت کو ملحوظِ خاطر رکھتے اور انتہائی سادہ و متوازن غذا کا
استعمال کرتےتھے۔ انہوں نے تقریباً نوے سال کی عمر پائی تھی۔
انہیں مطالعہ کا بے حد شوق تھا، یہاں تک کہ وہ ہم سے اپنی
اردو اور اسلامیات کی کورس والی کتابیں لے کر پڑھتے۔ مجھے ان کا انداز بھی یاد ہے۔
وہ کتاب منگوانے سے پہلے ہم سے لازمی پوچھتے کہ اگر اس مضمون کی کتاب فی الحال
استعمال نہیں کر رہے ہو تو لا دو ورنہ بعد میں لے آنا۔ اپنے ددھیال میں میں نے کسی
میں اس طرح کتب بینی کا رجحان نہیں دیکھا۔ ہم نے اپنے بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک
ان سے بے شمار قصے ،کہانیاں اور پہیلیاں سنے ہیں۔ وہ جب بھی جہلم سے لاہور ملنے کے لیے آتے تو میں
بڑے شوق سے ان سے کہانیاں سنا کرتی۔ کچھ کہانیاں وہ مجھ سے بھی بڑی دلچسپی سے سن
رہے ہوتے تھے۔ میں بہت چھوٹی تھی تو اپنی انگریزی کی کورس والی کتاب سے سنڈریلا کی
کہانی اردو ترجہ کر کے انہیں سنائی۔ وہ بے تحاشا خوش ہوئے۔ مجھے اب بھی ان کے چہرے
کے خوشی والے وہ تاثرات یاد ہیں۔ انہوں نے
میری والدہ کو بلا کر خوشی کا اظہار کیا کہ یہ دیکھو میری بیٹی نے آج مجھے کتنی
اچھی کہانی سنائی اور مجھ سے کہنے لگے کہ میں باقی بچوں کو بھی جا کر یہ کہانی سناؤں
گا اور بتاؤں گا کہ یہ کہانی مجھے میری بیٹی نے سنائی ہے۔برِ صغیر پاک و ہند کے
ساتھ ساتھ بہت سے اسلامی واقعات بھی اپنے
دادا کی بدولت میرے علم میں آئے ہیں۔ ایک مرتبہ ہم چند قرآنی آیات و سورۃ کے بارے
گفتگو کر رہے تھے تو میں نے ان سے سورۃ کوثر کے ترجمہ پر بات کی۔ بڑے غور سے سننے
کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ تم ایک کام کرو، مجھے ایک کاغذپر اس کا ترجمہ لکھ دو۔ میں
نے اس کا اردو ترجمہ لکھا دیا تو اسے بلند آواز میں پڑھنے کے بعد انہوں نے اپنی
جیب سے بٹوہ نکال کر اس میں حفاظت سے رکھ لیا۔ میں اس بات کو بھول گئی لیکن جب وہ
دوبارہ لاہور آئے تو مجھے وہ صفحہ دکھاتے ہوئے خوشی سے بتانے لگے کہ یہ دیکھو میں
نے اسے سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور روز اسے کھول کر پڑھتا ہوں۔ وہ بتاتے تھے کہ میں
کبھی اسکول نہیں گیا، کسی سے بیٹھ کر باقاعدہ پڑھا نہیں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی اور
میں نے ایک دن ان سے پوچھ ہی لیا کہ پھر آپ مطالعہ اور اپنے دستخط کیسے کر لیتے
ہیں؟ تو کہنے لگے کہ جب کوئی پڑھ یا لکھ رہا ہوتا تو میں اسے دیکھتا رہتا ، اسی
طرح مجھے پڑھنا بھی آ گیا۔ ہمارے اسکول کا رزلٹ آنا ہوتا اور ان دنوں ابا جی لاہور
میں ہوتے تو وہ کسی کو بتائے بغیر ہمارے اسکول کے گیٹ پہ موجود ہوتے ۔ ہم رزلٹ لے
کر ان کے ساتھ ہی گھر آتے تو وہ ہمیں انعام دیتے۔
میرا ننھیال محض ڈگریوں کی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی طور پر
بھی پڑھے لکھے ذہن اور سوچ کے حامل افراد پر مشتمل رہا ہے۔ بہت سے خاندانوں نے میرے
ننھیال سے رکھ رکھاؤ اور سلیقہ و طریقہ سیکھ کر اپنے گھروں میں اپنایا ہے، جس کا
اظہار بہت سے لوگ خود بھی برملا کرتے ہیں۔
ابی جان بردبار، سوجھ بوجھ رکھنے والے ،خوددار
،بچوں سے بہت محبت کرنے والے اور انتہائی
کھلے دل کے مالک شخص تھے۔اللہ نے انہیں قوتِ برداشت کی نعمت سے بھی نواز رکھا تھا۔
ان کی بذلہ سنجی والی طبیعت کے بارے میں شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں گے۔ مگر میں اور
سی بی(بھائی طلحہ) آج بھی ان کی بہت سی زندہ دل اور ہنسنے ہنسانے والی باتیں یاد
کر رہے ہوتے ہیں۔ مجھے کوئی ایسا دن یاد نہیں ہے کہ میں ان سے ملنے گئی ہوں تو
ہنسے بغیر ہی واپس آئی ہوں۔ جیسے سی بی کو دیکھ کر اکثر میرے اندر کی شرارتی لڑکی
جاگ جاتی ہے ویسے ہی ابی جان کے ہمراہ ہوتے ہوئے بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا کہ
انہوں نے کوئی مزاحیہ قصہ سنایا تو مجھے بھی کوئی مزاحیہ بات یاد آ گئی، پھر میں
اور ابی جان اس پہ خوب ہنستے۔یہ بات بڑی قابلِ غور ہے کہ ابھی تک میرے نانا جان
اور بھائی کے علاوہ ہر بندے کے ساتھ میری یہ والی کیمسٹری نہیں ہے کہ وہ کوئی
ہنسنے والی بات کہہ دے تو مجھے بھی ہنسی والی بات کی آمد ہو جائے۔ ابی جان کے ساتھ
کرکٹ میچ دیکھنے میں بھی لطف آتا تھا۔میچ کے بعد اس پہ تبصرے بھی چل رہے ہوتے تھے۔ابی جان کا تعلق شعبہء میڈیسن
سے نہیں تھا مگر وہ دوائیوں کی کے بارے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جب کوئی دوااستعمال
کرنی ہوتی تو وہ پہلے خود اس کے پیچھے اس کی ایکسپائری چیک کرتے۔ گھر میں کسی کو
بخار ہو جاتا تو تھرما میٹر سے خود ٹیمپریچر نوٹ کرتے۔ کوئی ڈاکٹر سے دوائی لے کر
آتا تو اس سے ڈاکٹر کا نسخہ لے کر پڑھتے
اور اس سےڈاکٹر کی ہدایات پوچھتے اور نسخے پر لکھی ہدایات اور دوائی کا استعمال
دوبارہ سمجھاتے تاکہ دوائی استعمال کرنے والے کو وہ سب یاد رہے۔ہمارے اگزامز چل رہے ہوتے تو ہماری کامیابی کی بہت دعائیں کرتے تھے۔ ایک
مرتبہ پیپرز کے دوران ایک مضمون مجھے انتہائی مشکل لگ رہا تھا۔ مما میری حالت دیکھ
کر پریشان ہو گئیں۔ ابی جان سے بات کی اور دعا کا کہا۔ اگلے دن ان کی دعاؤں سے پرچہ اچھا ہو گیا۔ ابی جان نے فون کر کے مجھ سے پوچھا تو میں نے
بتایا، وہ کہنے لگے کہ آپ فکر نہ کرو رزلٹ اچھا آئے گا، سورۃ یسین پڑھ دی تھی آپ
کے لیے میں نے۔ اماں جان سے پوچھتے تھے کہ آج کس بچے کا پیپر ہے تو وہ بتاتیں کہ
آج فلاں کا امتحان ہے۔ انہیں معلوم ہوجاتا تو وہ سب کے لیے دعائیں کرتے۔ ابی جان
کو تقریباً مکمل قرآن شریف زبانی یاد تھا۔
انہوں نے کسی قاری یا ادارے سے باقاعدہ طور پہ حفظ تو نہیں کیا مگر کثرتِ تلاوتِ
قرآن مجید کے باعث انہیں زبانی آیات اور
سورۃ یاد ہو چکی تھیں۔ جن دنوں سی بی حفظ کر رہا تھا تو وہ قرآن شریف کی دہرائی کی
غرض سے ابی جان کو قرآن مجید کا سبق ان کے ہاں سنانے جاتا۔
اماں جان اور ابی جان میرے متعلق میری والدہ کو کہا کرتے
تھے کہ یہ تمہاری بہت سمجھدار اور سلجھی ہوئی اولاد ہے، تمہارا کہا بھی مان لیتی
ہے، یہ ہمیں بہت پیاری اور عزیز ہے اس لیے
اس سے کبھی کسی معاملے میں سختی نہ کرنا۔
مجھے یاد ہے ایک دن میں اور انابیہ(بہن) آپس میں اٹھکھیلیاں کر رہے تھے تو
اس نے لاڈوں میں میرے گال پہ زور سے چٹکی بھری۔ ابی جان دیکھ رہے تھے تو اسے کہنے لگے
نہ نہ اسے نہیں کچھ کہنا۔ میں اور انابیہ دونوں ہی ہنس پڑے۔ اماں جان انتہائی زندہ دل، ہنس مکھ ، ملنسار ، رکھ رکھاؤ والی اور نفاست پسند خاتون تھیں۔ ان کی خاصیت یہ تھی
کہ ہر عمر کا فرد ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ وہ ہم سب کے معاملات پہ توجہ دیتی تھیں، خواہ وہ
خاندانی، شادی بیاہ، گھریلو، خریداری کے
ہوں یا کپڑوں جوتو ں کے انتخاب کے۔ وہ ہر ایک کے ساتھ یکساں اور محبت والا برتاؤ
کرتیں۔ میں نے آج تک اپنے ابی جان اور اماں جان کی زبان سے کسی پر کیا کوئی احسان
جتلاتے نہیں پایا۔ انہوں نے کبھی کسی سے صلہ کی توقع کی نہ ہی اپنی محبتوں اور
ریاضتوں کا ذکر یا اظہار کر کے جتایا۔ اماں جان کی یاداشت بہت اچھی تھی۔ انہیں بہت
سی باتیں یاد ہوتیں۔ ہماری سالگرہ کی تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رہتی۔باقاعدگی سے ہمیں
ایک شہر میں ہوتے ہوئے بھی ماموں جان کے ہاتھوں سالگرہ کے کارڈز پوسٹ کراتیں۔ سالگرہ کا تحفہ رکھا ہوتا تھا ،ہم جب انہیں ملنے
جاتے تو وہ لازمی دیتیں۔ اماں جان بہت زیادہ مہمان نواز خاتون تھیں۔کوئی مہمان ان
کے ہاں جاتا تو وہ بھی کبھی خالی ہاتھ نہیں
لوٹا۔ اپنی خود ساختہ اور بے تُکی باتوں پہ ہم پیار بھرے
انداز میں اپنی والدہ کی اماں جان کے
سامنے شکایت کرنے کا شغل بھی لگاتے تھےاور یہ اماں جان سے میرے لاڈ کا ایک
انداز تھا۔ وہ بھی آگے سے ساری شرارتوں کو سمجھ کر ہماری باتوں
سے محظوظ ہوتے ہوئے ہماری والدہ سے مصنوعی
خفا ہوتیں۔ میں نے 2012 میں ایک اخباری سلسلے میں ان کے لیے تحریری نوٹ لکھ کے
بھیجاجو شائع ہو گیا۔ میں اس دن اماں جان کی طرف گئی اور انہیں وہ سرپرائز دیا تو
وہ بہت خوش ہوئیں۔ ہمارے ننھیال میں اخبار گھر میں آتا اور سب باری باری اس
کا روزانہ مطالعہ کرتے۔ کچھ اخبار ناشتے
سے پہلے اور بقیہ بعد میں پڑھا جاتا۔اخبارات، رسائل، کتب بینی کا شوق اور قلمی
صلاحیت مجھے اپنی والدہ اور ننھیال سے ملی ہے۔ اماں اور ابی جان نے اپنے سرہانے اخبار،میگزین
اور کتابیں انتہائی نفاست سے رکھی ہوتی تھیں۔ اخبار پڑھنے کے بعد بے ترتیبی اور
لاپروائی سے پھیلا کر سلیقے سے تہہ کیے بنا ہی رکھ دینا، رسالے کا مطالعہ کرتے
ہوئے اس کے سرِورق سمیت تمام صفحےمروڑ دینا کہ پھٹ جائیں ، وہ ان سب باتوں پر خوب خفا
ہوتیں۔ وہ ان سب چیزوں میں میرے رجحان کے متعلق جانتی تھیں اس لیے بہت سے میگزین میرے
پڑھنے کےلیے سنبھال کر رکھ لیتیں۔
نانا نانی، دادا دادی کے رشتے بڑے خوبصورت ،بے لوث محبت
کرنے والے، حرص ، لالچ اور مفادات سے پاک ہوتے ہیں۔ بعض اوقات زندگی کے ایسے بہت
سے معاملات ہوتے ہیں جو آپ کسی اور سے نہیں کہہ سکتے لیکن صرف اِن پیارے رشتوں سے
ہی وہ معاملات زیرِ بحث لا کر سلجھا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے نانا نانی اور دادا دادی حیات ہیں تو ان کی صحبت میں وقت
گزاریے ، انہیں وقت لازمی دیجئے۔ یقین کیجئے ان سے بڑی مثبت شعاعیں پھوٹتی ہوئی
محسوس ہوتی ہیں جو آپ کو ہر منفیت سے آزاد کر دیتی ہیں۔ جب یہ لوگ حیات ہوتے ہیں
تب تک آپ ان کی پناہوں میں معاشرے کے سردو گرم سے محفوظ رہتے ہیں۔ ان کی قدر و
اہمیت کا اندازہ تب زیادہ ہوتا ہے جب یہ آپ کے پاس نہیں رہتے۔ میں اپنے اِن پیارے
رشتوں کی کمی اپنی زندگی کے ہر موڑ پہ بہت
زیادہ محسوس کرتی ہوں۔ میں نے ان کی محبتوں سے یہ بات جانی ہے کہ اولاد سے تو محبت
ہوتی ہی ہے لیکن اولاد کی اولاد سے اور بھی زیادہ محبت ہوتی ہے۔ جن کے نانا نانی
اور دادا دادی حیات ہیں اللہ ان پر اپنے بزرگوں کا سایہ قائم رکھے، اور مجھ سمیت جن
کے یہ پیارے بزرگ اس دنیا میں نہیں ہیں اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں مقام عطا
فرمائے، آمین۔
از قلم، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں