ایک اور لنگر خانہ

 

تحریر: راحیلہ کوثر 
 اس بات میں کوئی دوہری رائے نہیں کہ بھوکے مسکین یا یتیم کو کھانا کھلانا اسلام کی عین تعلیمات میں سے ہے حضور صلی علیہ وسلم نے فرمایا ”بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا مغفرت کو واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے“۔اس کے علاوہ بھوکے افراد کو کھانا کھلانا انبیا کی سنت ہے ۔ اولیا کرام اور صوفیہ کرام کے لنگر خانوں کی بنیاد انہیں احادیث پر ہے۔
لنگر خانہ ہے کیا ؟ لنگر خانہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں فقرا میں کھانا تقسیم ہوتا ہے ۔عہد مغلیہ میں بھی لنگر خانوں کا رواج رہا ہے تاریخ نے اس کی کوئی خاص تشہیر نہیں کی بس کہیں کوئی معمولی تزکرہ ہی ملتا ہے شائد عوام  آسودہ حال تھی یا تاریخ دان اس کو حکام کا ایک فریضہ ہی گردانتے تھے۔ البتہ مسافر خانوں کے شواہد مغلیہ عمارات اور  تاریخ دونوں میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ بات ہو رہی ہے لنگر خانوں کی  تاریخ دکن سلسلہ آصفیہ اور عہد مغلیہ کے ہندو امرائے سلطنت ٥٧٠٠ میں محمد شاہ عادل ، بیرم خان خاناں اور عبدالرحیم خان خاناں کے لنگر خانوں اور دریا دلی کا کچھ یوں تزکرہ ملتا ہے۔
”محمد عادل شاہ کے دور حکومت میں مساجد میں لنگر ملتا تھا اور مسجد کے قریب ہندووں کے لئیے بھی اس کا اہتمام تھا“۔
”شاہان مغلیہ کے بڑے بڑے شہروں میں لنگر خانے جاری تھے۔ یہاں مسلمانوں کو بنا بنایا کھانا اور ہندووں کو جنس مل جاتی تھیں بعد اذاں اکبر نے تو با قاعدہ ان کو نام بھی دئیے۔
خیر پورہ میں میں مسلمانوں کو ، دھرم پورہ میں ہندووں کو اور جوگی پورہ میں جوگیوں کو رہائش اور کھانا دیا جاتا تھا۔“ 
سکھ مزہب میں بھی لنگر خانوں کو بہت مقبولیت حاصل ہے اس ضمن میں گرو نانک نے 1481میں لنگر خانوں کی بنیاد رکھی جس کا مقصد باہمی میل جول اور نسلی تفریق کو نفی کرنا تھا اور آج بھی یہ روایت جاری و ساری ہے۔
جہاں میں نے بر صضیر پاک وہند میں لنگر کی تاریخ کا مختصر حوالہ دیا ہے وہیں قارعیں کو لنگر کی اقسام سے بھی روشناس کرواتی چلوں ...
درباری لنگر : یہ لنگر مسلم صوفیا کرام اور اولیا کرام کے مزارات پر میسر ہوتا ہے۔جہاں ہر انسان بلا امتیاذ کھانا کھا سکتا ہے۔
فلاحی لنگر: اس لنگر کا اہتمام فلاحی اداروں کی جانب سے کیا جاتا ہے کسی بھی مذہب اور مکاتب فکر کے مسکین اور ضرورت مند افراد اس لنگر سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
سرکاری لنگر: ایسا لنگر جس کا اہتمام حکومتی اداروں کی جانب سے کیا جائے۔ عہد مغلیہ کے لنگر خانے اس کی ایک مثال ہیں ۔
ملک خدا داد پاکستان میں  مندرجہ بالا بے شمار لنگر خانے ہیں ۔ابھی حال میں ہی ایک اور لنگر خانے کا افتتاح بھی ہوا ہے کسی نے اس کو سراہا تو بہت سوں نے اسے آڑے ہاتھوں بھی لیا ۔اس لنگر خانے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بیک وقت فلاحی ، سرکاری اور درباری بھی ہے۔
مجھے اس کی خبر اسی ماہ کے آغاذ میں ہوئی جب وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان  صاحبہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کےاحساس پروگرام کے تحت آج اسلام آباد میں دستر خوان بچھایا جائے گا۔اس کار خیر سے صلہ رحمی ،خدمت انسانیت اور کمزوروں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔  خدمت خلق تو جناب وزیر اعظم شوکت خانم کینسر ہسپتال بننے کے دور سےہی کر رہے ہیں اور خدمت خلق بہت اچھا عمل اور نیکی بھی ہے ۔ مگر عوام الناس نے بہت امیدوں کے بر آنے کی آس میں عمران خان صاحب کو ووٹ دئیے اور ان وعدوں کے پاس رکھے جانے کی امید میں آپ کو منصب اعظم پر براجمان کیا ۔آپ سے لنگر نہیں عوام کو روزگار چاہئیے خودداری اور عزت نفس کا تحفظ چاہئیے۔ قوم کو خیرات کی نہیں  خون پسینے اور حق حلال سے کمائی روٹی چائیے ۔ان کو احساس کے لنگر پر لگانے کی بجائے احساس محرومی سے نکال کر تعمیراتی شخصیات بنا نا حکومت کا کام ہےنہ کہ خیرات کی مفت روٹیاں تڑوا کر ناکارہ اور ہڈ حرام بنانا۔ ویسے بھی پاکستان میں بے بہا لنگر خانے ہیں مگر سفید پوش اور خوددار لوگ ان کا رخ بھی نہیں کرتے۔ لوگوں کو لنگر نہیں آپ سے روزگار چاہئیے۔یہ عوام کوئی غریب عوام نہیں ہےانہی کے پیسوں سے پارلیمنٹ بنتی اور سجتی ہے ۔یہ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے وزرہ کو وزارتوں پر براجمان کرواتی ہے۔پھر انہی کے ٹیکس کے پیسوں سے وزرہ ملکی و غیر ملکی دورے کرتے ہیں ساہیکل سوار والدین کی اولادیں وزارت ملتے ہی انہیں کے پیسوں سے بیرون  ملک اور ملک میں محل بناتے ہیں ۔عوام نے ووٹ آپ کے وعدوں پر دئیے ہیں  جیسے کہ پچاس ہزار گھر ، ایک کڑوڑ نوکریاں ، 46روپے لیٹر پٹرول ، وزیر اعظم ہاوس میں یونیورسٹی،گورنر ہاوس میں لائبریری،80 روپے کا ڈالر ، جنوبی پنجاب صوبہ  اور مہنگائی کا خاتمہ مگر ان سب وعدوں کے عوض قوم کو کیا ملتا ہے ؟  ایک لمبا سا یو ٹرن اور ۔۔۔ایک اور لنگر خانہ۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟