گنج بخش فیض عالم
تحریر : راحیلہ کوثر
حضرت داتا گنج بخش کا شمار بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کرنے والوں میں سر فہرست آتا ہے ۔ آپ کی تمام ذندگی اسلام اور انسانیت کی خدمت کی بہترین مثال ہے۔آپ کی ولادت افغانستان کے معروف شہر غزنوی میں ہوئی۔آپ کا اسم گرامی ”علی“ اور کنیت ”ابو الحسن“ جبکہ لقب ”داتا گنج بخش“ ہے۔آپ نے چار سار سال کی عمر میں اپنے والد عثمان بن علی سے قر آن پاک کی تعلیم لینا شروع کی اور اپنی غیر معمولی ذہانت کی بدولت جلد تعلیم مکمل کر لی۔عربی ، فارسی اور دیگر علوم حاصل کرنے کے لئیے سفر بھی اختیار کیا ۔ شیخ ابو قاسم گرگانی کا شمار آپ کے صف اول کے اساتزہ میں ہوتا ہے ۔
آپ حضرت شیخ ابو الفضل ختلی کے دست مبارک سے مشرف بہ بعیت ہوئے جو اس دورکےمتقی بزرگ اور قرآن و حدیث کے عالم تھے۔ آپ اپنی کتاب ”کشف المحجوب “میں اپنے مرشد کے ساتھ کیے ایک سفر کا احوال کچھ یوں بئیان کرتے ہیں کہ” ایک دن میں اپنے پیر و مرشد کے ساتھ بیت الجن سے دمشق کا سفر کر رہا تھا کہ راستے میں بارش ہو گئی جس کی وجہ سے بہت ذیادہ کیچڑ ہو گیا ہم بہت مشکل سے چل رہے تھے کہ اچانک میری نظر پیرو مرشد کے پاوں اور لباس پر پڑی جو بالکل خشک تھےاور پاوں مبارک پر کیچڑ کا بھی کوئی نشان موجود نہ تھا۔مجھے بہت حیرت ہوئی مرشد سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : ہاں جب سے میں نے پر وردگار پر توکل کرتے ہوئے ہر قسم کے وہم اور شبہ کو دل سے دور کر دیاہے اور دل کو لالچ اور ہوس کے کی دیوانگی سے محفوض کر لیا ہےتب سے اللہ ربالعزت نے میرے پاوں کو کیچڑ سے محفوظ رکھا ہے۔“
جب آپ کے مرشد نے آپ کو لاہور جانے کا حکم دیا اورفرمایا کہ تمہارے فیض کا سلسلہ لاہور ہی جاری ہو گا تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو میرے پیر بھائی حضرت میراں حسین ذنجانی موجود ہیں تو میری کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟ تو مرشد مسکرائے اور فرمایا کہ یہ تمہارے سوچنے کا کام نہیں بس تم فوراً جاو اور دین کی اشاعت اور اسلام کی ترویج کا کام شروع کرو۔ آپ نے حکم کی تعمیل کو بجا لاتے ہوئے سفر کا آغاذ کیا طویل مسافت کے بعد جب آپ لاہور کے دروازے تک پہنچے تو شام کا وقت تھا اور درواذے بند ہو چکے تھے چنانچہ آپ کو رات باہر بسر کرنا پڑی۔ اگلی صبح ابھی تھوڑا سا ہی چلے تھے کہ ایک ہجوم دکھائی دیا دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت میراں حسین زنجانی کا جناذہ ہے۔ یہ دیکھ کر آپ دم بخو ہوگئے۔ بعد ازاں ان کا جناذہ بھی آپ نے پڑھایا اور لاہور میں سکونت اختیار کر لی اور صرف رضائے الہی کی خاطر دین کی اشاعت فرمائی۔ لوگ آپ کے حسن اخلاق اور تعلیم کے اسیر ہو کر جوق در جوق اسلام کے دائرہ میں آنے لگے اور آپ کے دست مبارک سے بیعت بھی لانے لگے۔ آپ کے دست مبارک سے بھی کئی علم و معرفت کے دئیے روشن ہوئے۔
آپ 19صفر 465ھ، 1087ء میں اس جہان فانی سے کوچ فرما گئے ۔ آپ کا عرس ہر سال 19صفر کو منعقد کیا جاتا ہے اور نہایت عقیدت و شان سے منایا جاتا ہے جس میں لاہور اور بیرون لاہور الغرض بیرون ملک کے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں۔ آپ کی تمام عمر دین کی خدمت میں گزاری اور آج بھی لوگ آپ کے فیض سے استفادہ جاصل کر رہے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں