ماموں زاد بھائی فیضان مجاہد عرف فیضی

بچپن کا دور بھی کیا دور ہوتا ہے، معصومیت اور کھٹی میٹھی یادوں سے پُر۔ کل میں اور سی بی (بھائی طلحہ) اپنے اور ہمارےننھیالی کزنز کے مشترکہ بِتائے جانے والے بچپن کےکچھ لمحات یاد کر کے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ان میں سے ہی ایک واقعہ اس تحریر میں شیئر کر رہی ہوں جو ہماری اتنی زیادہ کم عمری کا ہے کہ شاید ہمارے ننھیالی کزنز گروپ کے کسی ممبر کو سوائے ہم دونوں بہن بھائی کے یاد بھی نہ ہو۔ہم نے تقریباً بہت سے کھیل ایک ساتھ کھیلے ہیں جن میں چند آرمی، پولیس اور ائر فورس کے کھیل بھی شامل تھے۔ ایک بار ہم ائر فورس کا کھیل کھیل رہے تھےجس  میں  جنگ کا ماحول ہے،دشمن نے حملہ کر دیا ہے اور ہمارے فوجی جوان دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے ان کی سرحدیں پار کرتے ہوئے فضائی حدود میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس  دوران ہمارا ماموں زاد بھائی  فیضان عرف فیضی پائلٹ بنا اپنے فرضی جیٹ میں بیٹھا اسے اُڑتے ہوئےجیٹ سمیت ایک دم ہچکولے کھانے لگتا ہے اور چِلانے لگتا ہے ، "اوئی امی میرا جہاز! اوئی امی میں گیا! میرا جہاز!" ساتھ بیٹھا پُرسکون انداز میں اپنا الگ سے جیٹ چلاتا ہوا پائلٹ سی بی اچانک اپنے ساتھی پائلٹ فیضی کی چیخ و پکار پر متوجہ ہوتا ہے اور جوش سے چِلاتا ہوا کنٹرول روم سے مدد مانگنے لگتا ہے، " سر! میرے دوست کا جہاز گرنے لگا ہے، پلیز اُس کو بچائیں وہ مشکل میں ہے، اوور۔" جبکہ کنٹرول روم  کا ہیڈ بنا حارث بھائی (ماموں زاد بھائی)اور ساتھ بیٹھی ساری صورتحال سے نمٹنے کی کوشش میں لگی ہوئی حواس باختہ ممبرز مدیحہ(ماموں زاد بہن)، منیبہ (خالہ زاد بہن)اور مجھ پر طائرانہ سی نگاہ ڈالنے کے بعد اپنے سر سے ہیئر بینڈ جسے ہم سب بطور ہیڈ فونز اس کھیل میں استعمال کرتے تھےاسے کھینچ کر اتارپھینکتا ہے اور چڑ کر کہتا ہے کہ "بے وقوفو! یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو بھلا ایسا کہاں ہوتا ہے؟" اور آج 2019 میں بیٹھے سی بی اور میں اُس واقعہ کو سوچ کر اِس بات پر ہنس رہے ہیں کہ جنگ کے دوران انتہائی افرا تفری کے عالم اور ٹینشن والے  ماحول میں فیضی کو امی یاد آ رہی ہیں جبکہ مدد کے لیے چیختے فیضی کی آواز جیٹ کے بند شیشوں کے اندر بیٹھا سی بی کیسے سُن لیتا ہے جو کنٹرول روم میں مدد مانگنے لگتا ہے۔

اماں کے گھر بچپن میں دونوں گھر کے باہر کھیل رہے تھے۔ ان کے پڑوس میں سامنے والا گھر ابھی تعمیر ہو رہا تھا اس لیے قریب ہی اینٹیں اور ریت وغیرہ کا سامان بھی رکھا ہوا تھا۔ کھیل کے دوران فیضی پانی پینے گھر کے اندر آیا تو سی بی نے اس کے کان میں کوئی بات بتائی۔ فیضی خاموشی سے اسے لے کر اپنے گھر کے اوپر والے پورشن کے بیڈروم میں لے گیا۔ آنٹی (ہماری ممانی اور فیضی کی والدہ)نے مجھے تھوڑی دیر بعدوہاں کسی کام سے بھیجاتو کیا دیکھتی ہوں کہ دونوں بیڈ  پریشانی والے تاثرات چہرے پہ سجا ئے بیٹھے تھے۔ میرے دماغ میں تھوڑی دیر پہلا باہر والا منظر آگیاجب دونوں ماموں جان  کی موٹر بائک پہ بیٹھے سرگوشیوں میں کچھ کہہ رہے تھے اور ہمارے پوچھنے پر دونوں نے ٹال دیا تھا۔ "اچھا! تو اسنیک پارٹی پلان کر رہے ہو نا؟" حارث بھائی (فیضی کے بڑے بھائی)نے کُریدا مگر دونوں نے نفی میں سر ہلا دیا اور وہاں سے غائب ہو کر یہاں بیڈروم میں آ کر بیٹھ گئے۔ میں نےغور کیا دونوں نے ایک دوسرے کو اشاروں میں ارادہ ظاہر کیا کہ علینہ کو بتا دیتے ہیں۔ فیضی کہنے لگا، بات سنو ! طلحہ کو گھٹنے پر چوٹ لگی ہے۔ مگر پلیز کسی کو جا کر بتانا نہیں۔ سی بی نے مجھے زخم کا نشان دکھایا تو اس پہ چوٹ کے علاوہ لال سا نشان بھی تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ سُرخ نشان کس چیز کا ہے؟ تو سی بی کہنے لگا کہ فیضی  نے اس پر جلدی سے لال دوائی لگا دی تھی۔  میں نے کہا تمہیں چوٹ کیسے لگی ؟کہنے لگا کہ فیضی پانی پینے گیا ،  اتنی دیر وہاں بلی آگئی تو میں اس کے پیچھے بھاگا(وہ بلی اکثر ادھر آ جایا کرتی تھی اور ہم سے بہت مانوس تھی)ہمسائیوں کا کوئی چھوٹا بچہ اپنی چھت پر کھیل رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا "تُو ابھی گِرے گا"۔ وہ مجھے کچھ خبردار کرنا چاہ رہا تھا لیکن میں نے اس پہ دھیان نہیں دیا ۔اچانک  بھاگتے بھاگتے مجھے پتا نہیں چلا میں بجری اور اینٹوں پہ چڑھ گیا۔ میرا پاؤں پھسلا اور چوٹ لگ گئی۔ چوٹ زیادہ نہیں تھی اور فیضی نے بھی جلدی سے اس پہ دوا لگا دی تھی اس لیے سی بی فوراً ٹھیک ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے سی بی کو فیضی کا بار بار شکریہ ادا کرتے اور فیضی کو "اوہ نہیں نہیں یار! شکریہ کس بات کا "جیسے کلمات دہراتے دیکھا۔

آج ماموں زاد بھائی فیضی کی سالگرہ ہے۔پچھلے سال جب میں نے اس کی سالگرہ پہ آرٹیکل لکھا تو اسے بہت اچھا لگا۔ اس بار سوچا کہ اسے پھر سے سرپرائز دینا چاہیئے۔سی بی سے اس کے پسندیدہ کزن کا نام پوچھو تو وہ فیضی کے علاوہ کبھی کسی اور کا نام نہیں لے گا۔ایک ساتھ کھیلے جانے والے کمپیوٹر گیمز ہوں ،کرکٹ ، لڈو، مونوپلی،کیرم،یا بچپن میں میرے لکھے ہوئے کسی کردار کو ایکٹ کرنا ہو، سب میں یہ تو طے رہا کہ اگر سی بی کا موڈ نہیں ہے تو فیضی نے بھی  سی بی کے بغیر اس میں شامل نہیں ہونا۔ مشترکہ کھیل میں اکتا گئے ہیں تو چپکے سے ایک نے دوسرے کو بڑی مہارت سے سب سے آنکھ بچا کر اشاروں میں کچھ کہہ اور سمجھ لیا اور پھر باری باری بہانے سے جان چھڑا کر بھاگ لیے۔تھوڑی دیر بعد باقی کزنز بھی کھیل مکمل ہونے پر انہیں ڈھونڈتے ہوئے پہنچتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں  کہ اماں جان اور ابی جان(نانی، نانا) کے کمرے میں ٹی وی پردونوں بھائی سی بی اور فیضی کارٹونز ملاحظہ فرما رہے ہیں۔اماں جان کے گھر کی چھت پر حارث بھائی اور کم سن انابیہ(بہن) بمقابلہ سی بی اور فیضی کی ٹیم کے درمیان کرکٹ کا دور چلتا ہے تو میں موبائل فون سے انہیں ریکارڈ کرتی کیمرہ مین، امپائر، کمنٹیٹر، شائقین سب کچھ خود ہی  بنی ہوئی ہوں۔ کرکٹ میں سی بی اور میرے رجحان کا سہرا ہمارے ان دونوں ماموں زاد بھائیوں  فیضی اور حارث بھائی کو جاتا ہے۔ہر ملاقات میں ہم نے کرکٹ پہ لازمی گفتگو کرنی ہوتی ہے۔سوشل میڈیا پہ بھی سی بی اور میری فیضی سے کرکٹ  پہ ڈسکشن ہو رہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں جب بھی میچز ہوتے ہیں میں سی بی ، فیضی دونوں کو اسٹیڈیم جانے کا پلان کرنے کو کہتی ہوں ۔ ہر بار دونوں زور و شور سے میری ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن پھر اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں۔

میرا کوئی ساتھی لکھاری تحریر لکھے تو اچھا لگتا ہے۔ مشوروں کی ضرورت ہو تو اکثر ہم لکھاری دوست تحریر لکھنے کے دوران  ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ مجھے یہ مناسب اور اچھا بھی لگتا ہے ۔ سی بی کو اس طرف راغب کرنے کے لیے  میں اسے  لکھنے کی تاکید کرتی رہتی ہوں جس پہ وہ کبھی سنجیدہ نہیں ہوتا مگر جب ایک دن فیضی نے ایک آرٹیکل لکھ کر مجھے بھیجا اور وہ پبلش ہو گیا تو مجھے سچے دل سے بہت خوشی ہوئی کہ چلو سی بی نہ سہی فیضی ہی سہی۔ اس کے باوجود بھی میں نے سی بی کا پیچھا نہیں چھوڑا ہوا ۔ میں اسے تب تک کہتی ہی رہوں گی جب تک وہ کچھ لکھ کر دنیا کو حیران نہیں کر دیتا۔ مجھے لگتا ہے کہ فیضی کو انگریزی زبان میں آرٹیکل لکھنے میں زیادہ دلچسپی ہے اور اس نے جو لکھا وہ اچھا لکھا۔ اس کے بعد سے اب تک مجھے اس کی مزید تحریر کا انتظار رہاجو ابھی تک انتظار ہی ہے۔شاید وہ اپنی مصروفیات کے باعث ایسا نہیں کر رہا پھر بھی امید ہے کہ جلد ہی وہ دوبارہ لکھے۔

بچپن سے بڑے ہونے تک وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات، سوچ  اور رویہ ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اپنے والد یعنی ہمارے ماموں جان سے مشابہت رکھنے والےہمارے ماموں زاد بھائی فیضی کو میں سی بی کے بعد دل کے قریب اس لیے سمجھتی ہوں  کہ اپنی اپنی زندگی میں مصروفیت کے باعث گو کہ  اب کم ہی ملنا ہوتا ہے لیکن وہ جب بھی ملتا ہے اتنی ہی محبت سے ملتا ہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ اس سے کبھی ملاقات ہو جائے تو یہ شائبہ نہیں ہوتا کہ  اس سے پہلے درمیان میں ڈھیر سارے دنوں کا وقفہ بھی آچکا ہے۔ ہماری وہی گپ شپ ہوتی ہے۔ ہم پہلے کی طرح کرکٹ پہ بہت سی باتیں کرتے ہیں، مارکیٹ میں کونسا سافٹ ویئر یا کوئی نیا گیجیٹ آیا ہے؟  میں آج کل کس پروجیکٹ پہ لکھ رہی ہوں اور اس میں مجھے کیا چیز اچھی اور کون سی مشکل لگ رہی ہے،سی بی کو وزن کم کرانے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں، ملکی حالات کس طرف جا رہے ہیں، دنیا کا رویہ اور ہماری نوجوان نسل کیا کچھ کر رہی ہے، وغیرہ۔

جب  میرے دونوں پیارے بھائی سی بی اور فیضی سامنے ہوں تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ فیضی کی طرف سے کافی دن رابطہ نہ ہو پائے تو سی بی فکرمندی کا اظہار کرتا ہے۔ میری اچیومنٹس، کامیابیاں، خوشیاں ہوں یا زندگی کے کسی میدان میں اونچ نیچ جس کا میں ذکر نہ بھی کروں مگر جب وہ تمام معاملات فیضی کے علم میں آ جائیں تو میرے والدین اور بھائی ، بہن کے بعد مجھ سے پہلا رابطہ کرنے والا وہی ہوتا ہے۔پیارے بھائی فیضی کے لیے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے درمیان ان محبتوں کو قائم رکھے اور ہر بُری نظر اور حسد سے بچائے، آمین۔


از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟