ہولووین تہوار کا پس منظر اور احوال مسلم


تحریر: راحیلہ کوثر

کل مجھے اپنے وٹس ایپ کے سٹیٹس سیکشن پر کچھ تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا جن میں  کئ دوستوں اور جاننے والوں کو ہولوین تہوار کو باقائدہ مناتے ہوے دیکھ کر حیرت سی ہوئی اور پریشانی بھی اپنی قریبی دوست سے دریافت کرنے پر علم ہوا کہ ان کے ادارہ کے مالکین غیر ملکی ہیں اور اس کا حصہ بننا اس کی ضرورت ہے اس کے علاوہ سب اس کو ماڈرن ازم کا سمبل گردانتے ہوے بھی دانستہ طور پر مکمل اہتمام کے ساتھ  منا رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ صرف اندھی تقلید کر رہے ہیں ان کو اس تہوار کے نہ تو پس منظر کا علم ہےاور نہ ہی پیش منظر کا خیال وہ صرف انجوائے کر رہے ہیں ۔تاہم اس کا علم تو سب کو بخوبی ہے کہ یہ نہ تو ہمارا مذہبی تہوار ہے اور نا ہی ثقافتی یہ صرف ماڈرن ازم کی تقلید کا سمبل ہے ۔

جہاں تک اس کی تاریخ کا تعلق ہے تو 12سو قبل مسیح میں  قدیم سفید فارم یورپی نسل کی قبیلے جن کو کلٹس کہا جاتا تھا کے عقیدے کے مطابق  31 اکتوبر سال کا آخری دن تھا اور وہ اس دن کو Day of Samhain کے نام سے مناتے تھے۔ Samhain ان کے اس  شیطانی خدا کا نام تھا جو ان کے عقیدے کے مطابق ان  کی روحوں پر قابض ہونے کا اختیار اور کنٹرول رکھتا ہے۔ کالے جادوکرنے والے گروہ خصوصی طور پر اس خدا کی پرستش کرتے آئے ہیں ۔
 اس قبیلے کا ماننا تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو بد روحیں زمین پر آجاتی ہیں اور بد کردار اور دوسروں کے ساتھ برا کرنے اور دوسروں کو تکلیف دینے والے انسانوں سے بدلہ لیتی ہیں اور ان سے بچنے کے لئیے گھر میں آگ جلانا ضروری تھا کیونکہ ان کے مطابق بدروحوں اور شیاطین کو آگ سے نفرت ہوتی ہے۔ کرسچن چرچز میں بھی 1843 سے 1880 تک اس دن کو A day of Saint  کے نام سے منایا جاتا رہا بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے All Halloween evening رکھ دیا گیا اور یہ تہوار امریکہ میں مشہور ہو گیا اور  وہ اس دن کو ڈراونے ماسک اور ملبوسات پہن کو بد روحوں اور ڈائنوں ویمپائرز اور شیاطین  کا روپ  دھار کر منانے لگے۔آج اس تہوار کو دنیابھر کے یورپی ممالک میں ہولووین کے نام سے جانا اور منایا جارہا ہے بلکہ اس روز سب کو عام تعطیل ہوتی ہے یہ تہوار کاروبار  اور دوسرے ممالک میں جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں تشہیر  کا ایک بہت بڑاذریعہ بن چکا ہے ۔2018 کے اعدادو شمار کے مطابق صرف امریکہ میں اس تہوار میں 9 بلین ڈالر خرچ کئیے گئے جن میں سے 3.2 بلین ڈالر لباس اور ماسک پر ،2.5 بلین ڈالر آرائش و زیبائش کے سامان پر جب کہ باقی ماندہ رقم پارٹیز پر خرچ کی گئی۔
مجھے ان کے اس تہوار کو منانے میں کوئی اعتراض بھی نہیں کیونکہ انکی اس تہوار سے ہم آہنگ تاریخ بھی ہے اور ایک ثقافتی تعلق بھی ہے۔وہاں تعلیمی اداروں میں بھی اس تہوار کو منایا جاتا ہے اور یوں وہ اس تہوار کو نسل در نسل منتقل بھی کر رہے ہیں بچے باقائدہ ڈائنوں ، جادوگروں اور بدروحوں کا روپ دھار کر Trick  and Treat سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور کھانے پینے کی چیزیں حاصل کرتے ہیں ۔

مگر حیرت تب ہوتی ہے کہ بلا ضرورت پاکستانی اپر کلاس ہر سال اس تہوار کو فیشن سمبل کے طور پر منانے لگے ہیں اور اس ضمن میں باقائدہ ڈانس پارٹیز کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ چلو یہاں تک بھی معاملہ کچھ حد تک ذود ہضم حیثیت رکھ سکتا ہے کہ مٹھی بھر دیسی لبرل رات کو ایک مخصوص مقام میں اکٹھا ہو کر اس واحیات تہوار کو مزید واحیات بن کر منا رہے ہیں مگر معاملہ تب خطر ناک صورت حال اختیار کرتا دیکھائی دیتا ہے جب برانڈڈ اسکول اس تہوار کو ہماری نئی نسل میں باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت منتقل کر تے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔کسی بھی طور مسلمانوں کا اس شیطانی تہوار سے دور دور تک تعلق نہیں مگر پھر بھی آج کے ہنس کووں کی چال چل رہے ہیں اور اپنی چال بھی بھول رہے ہیں ۔
جبکہ نبی کریم صلی علیہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ: جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا روز قیامت اسے انہی لوگوں میں سے اٹھایا جائے گا ۔
میری والدین سی التماس ہے کہ ان  گمراہ کن تہواروں کے متعلق اپنے بچوں کو  مکمل آگاہی فراہم کریں اور اللہ کے احکامات اور بنی کریم صلی علیہ وسلم کی تعلیمات کو مشعل راہ اور انداز زندگی بنائیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟