پیاری بہن کو سالگرہ مبارک ہو!
میں آج کے دن کو تکمیلِ تکون یا تکمیلِ مثلث کا نام دیتی
ہوں کیونکہ چند سال پہلے 30نومبر کو انابیہ
ظفر(بہن)نے جب اس دنیا میں قدم رکھا تو ہم تینوں بہن بھائی کی ایک مثلث قائم ہوئی۔
اور پھریوں ہوا کہ باجرے کے کھیت (ہمارے والدین کے آنگن ) میں ایک کی بجائے دو چِڑیاں
چُوں چُوں کرنے لگیں۔ اور چِڑااس نئی چڑیا کے نومولود وجود کو حیران نگاہوں سے
دیکھتا رہتا۔ جب چِڑے نے بولنا سیکھا تو وہ سارا دن ننھی چڑیا کا مشاہدہ کرتا
رہتا۔ اور چپکے سے زیرِ مشاہدہ آنے والی اس کی باتوں کا ذکر خود سے چند سال بڑی
چڑیا سے کرتا رہتاکہ اب اسے بھوک لگی ہے،اب
یہ چاہ رہی ہے کہ اسے ممابے بی کاٹ سے باہر نکال کر گود میں لیں یااب یہ
ہمارے ساتھ کھیلنا چاہ رہی ہے وغیرہ۔ اور ان دونوں سے کچھ سال بڑی چڑیا حیرت سے
کبھی چڑے اورکبھی اس چھوٹی چڑیا کا منہ
تکتی رہتی کہ چِڑے کو ہمیشہ ہی باتوں کا درست علم کیسے ہو جاتا ہے۔
آج ہماری بہن انابیہ ارسلان ہم سب کی آنکھوں کے تارےاور
میری جان کے ٹوٹے بہت بہت پیارے بھانجے محمد ولی کے ہمراہ بطور والدہ ماجدہ پہلی مرتبہ اپنی سالگرہ منا رہی ہیں۔ اب جس انداز
میں محمد ولی اپنی خالہ(مجھ)سے اپنے لاڈاٹھوا رہا ہوتا ہے ایسے ہی بچپن میں اس کی ماں نے مجھ سےاپنے لاڈ اٹھوائے ہیں۔ ان جذبات میں کوئی بہت زیادہ
فرق تو نہیں ہے لیکن یہ سچ ہے کہ اولاد اور
بہن بھائی کے بچوں سے بالکل الگ ہی انسیت ہوتی ہے۔ آج سالگرہ تو ہماری بہن کی ہے
لیکن سب سے پہلے ذہن میں محمد ولی ہی آتا ہے اس لیے اس کا ذکر ہمیشہ کی طرح اب بھی
ہو رہا ہے۔ انابیہ سے جب بھی بات ہوتی ہے سلام کے بعد اس کا حال چال بعد میں جبکہ
محمد ولی کی بابت پہلے پوچھی جاتی ہے۔وہ بھانجے سے ہماری اس محبت پر ہنس دیتی ہے
اورہم سے کہے بِنا نہیں رہ پاتی کہ کبھی میرا حال بھی پہلے پوچھ لیا کرو۔
انابیہ کی شادی سے پہلے جب میں رات کے وقت مطالعہ کر رہی ہوتی تھی تو اس کی موجودگی میں کمرے کی لائٹس جلا کر یہ کام
نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رات کو سونے سے قبل وہ مجھے کوئی میگزین یا کتاب ہاتھ میں
لیے بستر کی جانب بڑھتے دیکھتے ہی اپنی نیند میں خلل پیدا ہونے کا شور مچانے لگتی
وہ بار بار بتیاں بجھانے کو کہتی اور میں کتاب یا رسالے میں مگن بس دو منٹ اور،
اچھا ایک منٹ بعد بند کر دوں گی کہہ کہہ
کر اسے ٹالتی رہتی۔ آخر کار وہ نیند سے بوجھل آنکھیں لیے اٹھ کر کمرے کے تمام شمع
دان خود ہی بند کر دیتی اور مجھے مجبوراً کمرے سے اٹھ کر ڈرائنگ روم میں جا کر
مطالعہ کے منقطع سلسلے کو دوبارہ جوڑنا پڑتا۔ کھانا پکانے کی کوئی ترکیب ہو،تعلیمی
میدان میں مضامین کا چُنائو کرنا ہو، کسی محفل میں پڑھنے کے لیےنعت کی تیاری کرنی
ہو، سب کاموں میں مہارت رکھنے کے باوجود بھی وہ گھنٹوں میرا سر کھاتی رہتی۔
مجھے اُس سے قصے کہانیاں سُننا بہت اچھا لگتا تھا۔
کالج ، یونیورسٹی کی روداد ہو یا اسکول میں بطور ٹیچر اُس کے شاگردوں کی باتیں وہ
بڑے مزے سے سُناتی اور میں اُسے بغیر ٹوکے ہی سُنتی۔ بچپن سے لے کر اب تک کے پرانے
قصوں کو ہم جب بھی یاد کرتے ہیں تو بہت ہنستے ہیں۔ میرے بچپن کے ساتھی کہتے ہیں کہ
مجھے پرانی سے پرانی باتیں بھی بہت اچھے سے یاد ہوتی ہیں جنہیں میں زبانی اور تحریری طور پر
شیئر بھی کرتی رہتی ہوں۔ لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں مجھے
معلوم نہ بھی ہو تو انابیہ کو وہ لازمی یادہوتی ہیں۔ کبھی کبھی آپس کی یا کسی اور بات کی طرف وہ کچھ اس انداز میں زبانی یا کہے بغیر
بھی یوں توجہ دلا دیتی ہے کہ اگراس میں مزاح کا عنصر غائب بھی ہو تب بھی وہ بات مزاحیہ
رُخ اختیار کر جاتی ہے۔کسی سنجیدہ محفل میں ہوتے ہوئے جب کوئی ایسی صورتحال بن
جائے تو اس کی باتوں پر میرے لیے ہنسی پر قابو پانا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ تب میں
اس سے وقتی طور پہ تھوڑے فاصلے پر چلی جاتی ہوں۔ مگر اس کے باوجود بھی وہ میرے
ساتھ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتی۔
سی بی(بھائی طلحہ) کو جب مجھ سے کوئی کام پڑ جائے توتنگ
کرنے کو وہ اکثر مجھ سے یہ جملہ کہہ کر وہ
کام کرنے پر اصرار کرتاہے کہ بڑی بہن بھی تو ماں کے برابر ہوتی ہے نا، اس لیے جیسے
مما ہمارا خیال رکھتی ہیں تم بھی رکھو۔ایک دن مما کسی کام سے گھر سے باہر گئی ہوئی
تھیں تو سی بی کو دیکھتے ہوئے مما کی غیر
موجودگی میں انابیہ بھی اس کے ساتھ مل کر مجھے چھیڑتی رہی ہے کہ اگر تم نے ہمارا
خیال نہ رکھا تو ہم مما کو تمہاری شکایت
درج کرا دیں گے۔ اور جب مما گھر واپس آئیں
تو انابیہ نے باقاعدہ ان کو میری رپورٹ درج کرائی کہ مما اس نے میرا بڑا خیال رکھا
تھا۔ سی بی اور میں ہنسنے لگے۔ بہن بھائی کا رشتہ بڑا پیارا اور خوبصورت رشتہ
ہےاوراللہ کا کرم ہے کہ اس نے ان دونوں
رشتوں سے مجھے نوازا۔ بھائی کی طرح بہن بھی بہت پیاری عطا کی۔میری دعا ہے کہ اللہ
تعالیٰ اسے شر،حاسدین ،بری نظر غرض یہ کہ ہر
طرح کی برائی اور ہر قسم کی منفیت سے متاثر ہونے سے محفوظ رکھے،اور محمد ولی کی ڈھیروں خوشیاں
دکھائے، آمین۔
از قلم، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں