7نومبر میری والدہ کی سالگرہ کا دن ہےسو اسی حوالے سے میں نے ان سے
پوچھا کہ اپنی سالگرہ سے جڑی کوئی یاد اس وقت ذہن میں ہو تو بتائیں۔ میرے پوچھنے
پر وہ کہنے لگیں کہ بچپن میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے ناطے اپنے گھر،
خاندان بلکہ اسکول میں بھی میں تمام
اساتذہ کی لاڈلی تھی۔ میری سالگرہ کا اہتمام بڑی بہن(ہماری خالہ جان) کیا کرتی
تھیں وہ میری پسند کے مختلف پکوان تیار کرتی تھیں جبکہ والدین اور بھائی(ہمارے
نانا ،نانی اور ماموں) تحائف دیتے تھے، میری دوست بھی میرے لیے بہت سے تحائف لے کر
آتی تھی اور خالہ اور خالو جی بہت پیارے کارڈز
اور کتابیں لے کر دیگر تحائف سمیت ہمارے گھر اس دن خصوصی طور پہ میرے لیے
آتے۔ انہوں نے ہنستے ہوئے مزید بتایا کہ بچپن میں ہر سالگرہ پر وہ خفا ہی رہتی
تھیں، بہن بھائی اور والدین پوچھ پوچھ کر تھک جاتے لیکن کبھی وجہ بھی نہ بتاتی تھیں۔
میں نے پوچھا کہ آخر اتنی ناراضی کی وجہ کیا ہوتی تھی اور آپ کسی کو بتاتی کیوں
نہیں تھیں؟ تو کہنے لگیں کہ ناراضی کی وجہ تو مجھے خود بھی معلوم نہ ہوتی تھی تو
بھلا میں کیا بتاتی۔
آپ سب میری تحریریں پڑھتے
ہیں اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں مگر آپ میں بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ کہ
قلمی صلاحیت مجھے میری والدہ سے ورثے میں ملی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ جب ان کی تحریریں
مختلف اخبارات میں شائع ہوا کرتی تھیں تو وہ بھی خوشی کا اظہار اسی انداز میں کرتی
تھیں جیسا کہ آج میں اپنی تحریریں پبلش ہونے پہ کرتی ہوں۔میرے یہ احساسات میرے
علاوہ میری والدہ ہی سمجھ سکتی ہیں یا پھر ہم سا کوئی بھی وہ شخص جو ان لمحات سے
گزرتا ہے۔ استادِ محترم فرماتے ہیں کہ اپنی اولاد کے ذہن میں بگاڑ پیدا مت کریں کہ
وہ اپنے آپ کو کوئی توپ شے سمجھنے لگے اور نہ ہی اس کی کسی غلطی کی سرزنش اس طرح
کریں کہ وہ ہر معاملے میں باغی ہو جائے۔مما
میری تمام تحریروں کا مطالعہ کرتی ہیں کسی تحریر میں جو چیز مجھے سمجھ نہ آ رہی ہویا کچھ پیچیدگی یا
دشواری کا سامنا اور جہاں مجھے رہنمائی کی ضرورت ہو تو وہ فراہم کرتی ہیں۔ وہ میری
تحریریں پڑھ کرحوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں مگر میں نے کبھی ان کی زبان سے کسی کے
سامنے میری تحریروں کا یوں ذکر ہوتے ہوئے نہیں سنا کہ سننے والے کو یہ لگے جیسے
اپنی اولاد کی بے وجہ دھاک بٹھائی جا رہی ہویا خواہ مخواہ کوئی رعب ڈالا جا رہا
ہو۔بلکہ کسی نے انہیں کبھی اپنی قلمی صلاحیت کا تذکرہ کرتے بھی نہیں دیکھا۔ بہت سی
خواتین اپنی اولاد کی وہ خوبیاں بھی دوسروں کو بتا رہی ہوتی ہیں جن کی موجودگی سرے
سے ان میں ہوتی بھی نہیں اور جو خصوصیات
معمولی طور پہ بھی موجود ہوں انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت
انہیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ کیا کر رہی ہیں۔ جب آپ اپنی یا
خود سے جڑے کسی بھی شخص بالخصوص اپنی اولاد کی خوبیوں کا بار بار ذکر کرتے ہیں یا
بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں تو اتنا ہی قابلِ گرفت بن جاتے ہیں۔ خدا نخواستہ
وقت پڑنے پر اسی کام میں اگر کوئی معمولی سی بھی غلطی سرزد ہو جائے تو اس کی معافی
ملنے کے آثار مشکل ہی ہوتے ہیں بلکہ الٹا آپ کو ہی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
مما اس وقت میرے ساتھ ہی بیٹھ کر یہ تحریر پڑھ
رہی ہیں اور مجھے وہ دور یاد آ رہا ہے جب بچپن میں پڑھائی کے دوران وہ مجھے ہوم
ورک کراتی تھیں تو میرے کورس کی کتاب ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی جس میں درج سبق کو مجھے
آسان زبان میں سمجھاتی تھیں تاکہ میں اسے بہتر طریقے سے سمجھ سکوں۔آج وقت کا پہیہ
کچھ یوں پھرا کہ اب گیجیٹس(یعنی موبائل، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر وغیرہ) میرے ہاتھ میں
ہوتے ہیں اور میں ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ انہیں ساتھ بٹھا کر دکھاتے ہوئے ان کی
مرضی کے مطابق آپریٹ کررہی ہوتی ہوں۔ اس
کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ یہ سب چلا نہیں سکتیں بلکہ بات ساری یہ ہے کہ میرے
کئی بار کہنے کے باوجود بھی ان چیزوں میں عدم دلچسپی اور رجحان نہ رکھنے کے باعث یہ سب کام انہوں نے
مجھے ہی سونپ رکھے ہیں۔ ایک کثیر تعداد میری والدہ سے محبت اور احترام کا رشتہ روا رکھے ہوئے ہےمیں
ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اللہ سب پر ایسی شفقت کرنے والی ماؤں کا
سایہ سلامت رکھے، آمین۔
از
قلم ، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں