بھانجےمحمد ولی کو جب پہلی
مرتبہ اپنے ہاتھوں میں لیا تو اس ننھے وجود کے لمس نے میرے اندر جو خوبصورت جذبات
پیدا کیے وہ آج اس کی زندگی کے ایک سال مکمل ہونے پر بھی یاد آتے ہیں۔ اس کا وجود
اپنے سینے سے لگاتے ہی ہمیشہ پُر سکون سا احساس ہوتا ہے۔ اسے بھی اپنی خالہ کے (میرے)وجود
میں کشش محسوس ہوتی ہے تب ہی وہ رینگتا ہوا دوڑکر میرے پاس قلقاریاں مارتا چلا آتا
ہے۔ وہ اپنے گھٹنوں کی بجائے پنجوں اور ہاتھوں کے بل رینگتا ہے۔کرالنگ کرتا ہوا وہ
بالکل بلی کے بچوں سا لگتا ہے اور میں اسے اس وقت ماؤں بلا کہتے ہوئے گود میں لیتی
ہوں تو وہ مسکرا دوبارہ رینگنے کو مچلنے لگتا ہے۔ غالباً اسے اس کھیل میں لطف آتا
ہے۔
جن لوگوں نے میرا بچپن یا
میرے بچپن کی تصاویر دیکھ رکھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ محمد ولی ظاہری شکل و صورت میں اپنے بابا مما کے بعد
اپنی خالہ جیسا بھی ہے۔ اور خالہ کو بھی یہ بات سو فیصد درست لگتی ہے، اس لیے وہ
ایسی ہر بات کے جواب میں کہتی ہیں کہ محمد ولی تو ہے ہی میرا۔ اب بڑا ہو رہا ہے تو
اسے تھوڑی سی سمجھ بھی آنے لگی ہے۔ میں اسے گُگی مُگی اور سونی یا چھونی کے ناموں
سے بلاتی ہوں تو فوراً میری جانب متوجہ ہوتا ہے۔ محبت کے اظہار کے بے شمار انداز
ہیں۔اور میرے اظہارِ محبت کے بھی کئی انداز ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے بہت
بہت بہت زیادہ پیاروں کو میں پیار کے ناموں سے بلاتی ہوں ۔یہ بات میں پہلے بھی
واضح کر چکی ہوں کہ میں پیار کے ناموں سے ہر کسی کو نہیں بلاتی ۔ بس میرے دل کے جو
سب سے زیادہ سے بھی سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں میں نے پیار کے نام بس انہیں ہی دے
رکھے ہیں۔ محمد ولی بھی ان میں سے ایک ہے جسے میں پیار کے مختلف ناموں سے بلاتی
ہوں۔ میں کوئی جملہ بولتی ہوں تو وہ اپنی بولی میں جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ،
اماں، اپا، پاپا،آجا ،ایسے، اچھا جیسے الفاظ بھی بولتا ہے۔ چھوڑ دو، یہ لینا ہے، یہ نہیں لینا جیسے الفاظ بھی اسے بولنے
آ گئے ہیں۔ اپنی مما کو وہ انا بھی کہتاہے۔اس کے بعد باقی لوگوں کو بھی وہ اسی نام
سے بلانے لگا ہے۔
محمد ولی روتے ہوئے چپ نہ
ہو رہا ہو تو ننھیال میں اپنی مما کے بعد اپنی خالہ کی (میری)گود میں آ کے چُپ ہو
جاتا ہے۔محمد ولی کی خالہ کو اس کی مما کے بعد ننھیال میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ
سب سے پہلے اس نے مما کے بعد اپنی خالہ کو ہی پیارکیا تھا۔ وہ محض ابھی چند دن کا
ہی تھا جب خالہ نے اسے اپنی مما کے گالوں پہ بوسہ دیتے ہوئے دیکھا۔ پھر کچھ دن بعداسی طرح اس نے مجھے بھی پیار کیا
تو ہم سب حیران رہ گئے۔وہ جب بھی نانا ابو اور نانو کے گھر آتا ہے تو اب بھی اپنی
خالہ سے ایسے ہی لاڈ کرتا ہے۔ ایک دن خالہ کسی بات کو لے کر بہت پریشان اپنے کمرے
میں تنہا اور اداس بیٹھی تھیں۔ محمد ولی بھی اتفاق سے اس دن نانا ابو کے گھر
ڈرائنگ روم میں اپنی مما، نانو، نانا ابو اور ماموں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ کھیلتے
کھیلتے نجانے کیا محسوس ہوا جو وہ کرالنگ کرتا ہوا خالہ کے کمرے میں آ گیا۔ایک
آنسو لکیر کی صورت محمد ولی کی خالہ کے
چہرے پر امڈ آیا۔ محمد ولی اپنے مخصوص انداز میں تیزی سے رینگتا ہوا اپنی خالہ کی
گود میں چڑھ آیا اور اسی آنسو سے بھیگے چہرے کو چوم لیا۔خالہ اپنا درد بھول کر اس
ننھے فرشتے کو حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے دیکھنے لگیں کہ اللہ نے اس میں
کیسے کوئی سینسر فِٹ کردیا جو کسی بڑے کو تو علم نہ ہوا مگر وہ چند ماہ کا بچہ جان
گیا اور میرے پاس چلا آیا۔ جو قصے، کہانیوں، فلموں، ڈراموں میں ہوتا ہے وہی کچھ
محمد ولی اور اس کی خالہ کے ساتھ حقیقت میں رونما ہوا۔
اپنی والدہ کی پیار بھرے
انداز میں اپنی نانی سے شکایتیں کرنے والے لاڈ کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔جب ہم چھوٹے
تھے تو اماں جان (ہماری نانی جان)سے مما کی ایسی شکایتیں کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا
کہ اماں مما کو سمجھائیں ہمیں فلاں بات پہ ڈانٹتی رہتی ہیں، فلاں چیز پہ ٹوکتی ہیں
وغیرہ۔ وہ بھی آگے سے ہماری باتوں سے محظوظ ہوتے ہوئے انہیں مصنوعی خفا ہوتیں۔اب
مجھے ہمارا ننھا محمد ولی بھی ہماری اسی روایت کو قائم رکھتا نظر آتا ہے۔تقریباً
دو ڈھائی ماہ کا محمد ولی ایک دن اپنی نانو کے گھر آتا ہے۔ اسے بھوک لگی ہے اور اس
کی مما دودھ بنانے میں مصروف ہیں مگر انہیں دودھ بناتے ہوئے تھوڑی سی دیر ہو گئی
ہے کہ وہ اس سے پہلے اسے چینج کرا رہی تھیں۔ مگر بھوک سے صبر کا پیمانہ لبریز ہو
رہا ہے تو محمد ولی ساتھ بیٹھی نانو اور سنگھار
میز پر ترتیب سے چیزیں رکھتی ہوئی آئنے کے سامنے کھڑی اپنی خالہ کو باقاعدہ اپنی
زبان میں مخاطب کر کے باری باری تینوں کو دیکھتا ہوا اپنی مما کی شکایتیں کر رہا
ہے۔چھوٹا سا محمد ولی ایک دن گرمیوں کی دوپہر نانو کے گھر داخل ہوکرمین دروازے
پہ نانو سے ملتے ہی گرمی لگنے کے بارے میں
انہیں رو کر سمجھانے لگا کہ اسے پانی پینا ہے۔ہمیں اس کی اس بات پہ بے حد پیار
آیا۔بھوک کے وقت روتے ہوئے محمد ولی کو دیکھ کر نانا ابو اس کی خالہ اور نانو کو
آوازیں دیتے ہوئے کہتے ہیں،"محمد ولی کی نانو! محمد ولی کی خالہ! محمد کو
بھوک لگ گئی ہے، جلدی سے میرے بیٹے کے لیے فیڈر بنا کے لے آؤ۔" اور وہ یوں مڑ
مڑ کر ہماری طرف متوجہ ہوتا ہمیں کچن میں جاتا دیکھتا ہے۔
جب محمد ولی نانو کے گھر
آتا ہے تو اس کے ماموں ساری رات اس کے سرہانے رہ کر جاگتے رہتے ہیں تاکہ اسے جب
کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ اسے دیکھ سکیں۔ماموں کو اپنی شاپنگ کے دوران ہر لمحہ
محمد ولی کا ہی خیال رہتا ہے۔ چند ماہ کے محمد ولی کے لیے ماموں ایک دن کھلونے
لیتے وقت پانی والی گن لے آئے۔ اور اس وقت تو ہم خوب ہنسے جب وہ اپنے نو ماہ کے
بھانجے کی محبت میں لالی پاپ کا پیکٹ ہی اٹھا کر لے آئے۔ خالہ نے کہا کہ نو ماہ کا
بچہ لالی پاپ کیسے کھا سکتا ہے؟ تم اسے تبدیل کرا کے اسٹور سےوہ چیز لے آؤ جو وہ
کھا سکے۔ ماموں نے لفافے سے بسکٹ کا ڈبہ
نکال کر میرے سامنے رکھا اور کہا کہ یہ دیکھو میں نے اس کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔
لالی پاپ کا پیکٹ محمد ولی کو تھمایا تو وہ اسے کھلونا سمجھ کر بڑے شوق سے
کھیلنےلگا۔محمد ولی کو دیگر کھلونوں کی طرح ٹھنڈے پانی کی بوتل سے کھیلنا بھی بہت پسند ہے۔
نغمے سننے اور گانےمیں
محمد ولی اب بھی اتنی ہی توجہ دیتا ہے جیسے چھوٹا سا اپنی خالہ کی گود میں سنتا
تھا۔کم عمری کے باعث محمد ولی کی زبان سے الفاظ کی ادائیگی صحیح ہو پائے یا نہ ہومگر وہ تقریباً ہو بہو
اسی دھن میں ہی گا رہا ہوتا ہے جس میں اس نے اسے سُن رکھا ہوتا ہے۔ پچھلے ماہ جب وہ ہمارے ہاں آیا تو میں نے اسے ایک مرتبہ ہی "الڑ بلڑ باوے
دا" سنائی ۔ دوسری مرتبہ اس نے اپنی زبان میں بالکل اسی ٹیون میں گاکر ہم سب
کو حیران کر دیا۔
خالہ کو اپنی تصویریں
بنانے یا سیلفیز کا کوئی خاص شوق نہیں ہے
۔ لیکن خالہ کی موبائل گیلری محمد ولی کی تصویروں سے بھری پڑی ہے اور اس کے ساتھ
خالہ نے اپنی اور محمد ولی کی مشترکہ
فوٹوگرافس والی سیلفیز بھی رکھی ہوئی ہیں۔ ایک مرتبہ محمد ولی مما کی گود میں
ممااور خالہ کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہا تھا۔ خالہ نے اس کے اچھے موڈ کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے موبائل کا وڈیو کیمرہ آن کیا
تو اس نے خالہ کے ہاتھ سے فون لے لیا اور اس سیلفی کیمرہ میں اپنی اور مما کی شکل
بغور دیکھنے لگا۔ وہ پیارے پل کیمرے میں
محفوظ ہونے لگے۔خالہ، مما اور نانو اسے محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔مما کو یہ
ڈر کہ محمد ولی فون خراب نہ کر دے اور خالہ کو یہ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کیوٹ سی وڈیو سیو نہ
ہو پائے یا ڈیلیٹ ہو جائے۔ مما نے محمد ولی سے فون لے کر ویڈیو سیو کرنا چاہی تو
وہ فون دینے پہ راضی نہ ہوا۔پھر خالہ نے بڑے پیار سے اس سے فون لے کر وہ ویڈیو سیو
کرلی۔یوں وہ وڈیو محمد ولی کی پہلی سیلفی وڈیو بن گئی جو ابھی بھی خالہ کے فون میں
موجود ہے۔ ایک پیاری سی وڈیو اپنے فون سے محمد
ولی کےماموں نے بھی چپکے سے بنا لی جس میں محمد ولی کے نانا ابو اپنا فون محمد ولی کو تھما کر پوچھ رہے
ہیں کہ یہ موبائل کس کا ہے اور محمد ولی جواب دے رہا ہے "علینہ کا ہے"
یعنی اپنی خالہ کا۔
پیارے محمد ولی! پہلی
سالگرہ بہت مبارک ہو! یہ تحریر خالصتاً تمہارے لیے ہےاور تمہاری بہت سی پیاری
باتیں ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے لیکن تحریر کے طوالت اختیار کر جانے کے خیال سے
مزید آئندہ کے لیے لکھنے پر چھوڑ رہی ہوں۔ ماں ماں ہی ہوتی ہے دنیا کا کوئی رشتہ
بھی اس کا نعم البدل نہیں ہے۔ لیکن معاشرتی اور مذہبی اعتبار سے خالہ کا درجہ بھی ماں کے برابر ہی ہے۔میں اس
رشتے کی محبت پر اس لیے بھی بہت حساس ہوں کہ ہم تینوں بہن بھائی نے اپنی خالہ سے
بے تحاشا محبت سمیٹی ہے۔اس محبت کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔
اللہ ہماری خالہ جان کو جنت نصیب فرمائے، آمین۔ میں اپنی خالہ جیسی خالہ بننے کا
دعویٰ نہیں کروں گی لیکن کوشش یہی رہے گی کہ محبت کے جو انداز اپنی خالہ جان سے
میں نے سیکھے ہیں انہیں اپناسکوں۔ میری اور تمہاری خالہ میں ایک قدر تو مشترک رہی
ہے کہ میری خالہ بھی اکلوتی تھیں اور تمہاری خالہ بھی اکلوتی ہیں۔جب میں اپنے ساتھ
تمہارے لاڈ کے انداز دیکھتی ہوں تو مجھے اپنا، تمہارے ماموں اور تمہاری مما کا بچپن یاد آ جاتا ہے کہ اپنی خالہ جان کے
ساتھ ہمارے لاڈ کے انداز بھی یہی تھے جیسے تم اپنی خالہ سے لاڈ اور پیار کا اظہار
کر رہے ہوتے ہو۔ جیسے ہم فوٹوگرافی اور وڈیوگرافی کے ذریعےیادوں کے حسین پل محفوظ کرتے ہیں اسی
طرح اسے لکھنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ تمہاری
خالہ ہوں یا نہ ہوں مگر ایک یاد کے طور پر تم عمر کے کسی حصے میں اسے جب بھی پڑھو
تو تمہارے چہرے پر مسکراہٹ پھیل رہی ہو، وہی پیاری سی مسکراہٹ جوتمہاری خالہ کو بہت پسند ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تمہیں
ہمیشہ ہر نیک ارادے میں کامیاب فرمائے اور
ہم سب کو تمہاری ڈھیروں خوشیاں دکھائے، آمین۔
از قلم، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں