دسمبر کی شبِ آخر، تنہائی، میں اور میرا قلم
2019کے دسمبر کی آخری سرد ڈھلتی ہوئی شب کو محسوس کر رہی ہوں۔تنہائی کے اس
عالم میں کاغذقلم تھامےجنوری 2019کے آغاز
سے اس سال کا جائزہ لینا چاہتی ہوں تو سامنے خلا میں سب کچھ کسی فلم کی مانند چل
پڑا ہے۔ میری آنکھیں کچھ کھو تے ہوئے، کچھ واپس آ تےہوئے، کچھ بدلتے ہوئے، کچھ وہی
رہتے ہوئے، کچھ ظاہر ہو تے ہوئے، کچھ پوشیدہ ہی رہنے والے دھندلے سے پھیکے، پُر
رونق، رنگ برنگے، کھٹے، نمکین، پھیکے، تلخ و شیریں وہ سارے مناظر دیکھ رہی ہیں جو اس ایک سال میں
وقوع پذیر ہوئے۔ میرا قلم اِس ایک رات میں سب کچھ ہی تحریر کر دینا چاہتا ہے مگر وہ
سارے طویل سلسلے ہیں جنہیں ایک ہی پل میں کاغذ پر نہیں پُر کیاجا سکتا اور 2020 کا
سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے یہ تحریر مکمل کرنی ہے۔
2019 میری زندگی میں بہت اہم رہا ۔ گزشتہ سال کو میں اس لیے بھی اہم سمجھتی ہوں کیونکہ مجھے
یوں لگتا ہے کہ اس میں پیش آنے والے تمام تجربات و حوادثات آئندہ زندگی میں میرے
لیے یقیناًمددگار ثابت ہونے والے ہیں۔ اس سال نے میری قوتِ ارادی ،فیصلہ لینے اور
اس پر ثابت قدم رہنے والی صلاحیت کو مزید بیدار کیاہے۔ ان تمام لوگوں کا شکریہ
جنہوں نے میرےاچھے بُرے دونوں وقت میں مجھے
دل سے سمجھا اور میرے ساتھ خلوصِ نیت سے کھڑے
رہے۔ وقت پڑنے پر میرے بغیر کہےہی آپ سب ہر لمحہ مجھ سے رابطے میں رہے۔ استادِ
محترم فرماتے ہیں کہ مُثبت لوگوں کی صحبت میں رہا کرو۔ مُثبت لوگوں سے ملنے والی
پاکیزہ شعاعیں ہمیشہ میرے دل و دماغ کو سکون بخشتی ہیں۔
2018 کے بعد 2019 کا شکریہ جس نے میرے اس علم میں اضافہ کیا
کہ لوگ نہیں بدلتے بلکہ وہ ہمیشہ سے وہی ہوتے ہیں جو ان کی حقیقت ایک مدت تک آپ سے
پوشیدہ رہتی ہے۔ جب کوئی انسان آپ پر کھُلتا ہےتو وہ قدرت کے اشارے ہی ہوتے ہیں جو
آپ کو اس کے رویے کو جاننے اور پرکھنے میں مدد و رہنمائی فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ 2019نے
مجھے سکھایا کہ محبتوں کو ناسمجھنے، ان کی
قدر نہ کرنے ، محض اپنی عزتوں کو اول جاننے جبکہ دوسروں کو رسوا کرنےوالوں پر اب اپنا انتہائی قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا کہ دنیا
ان سے کہیں بہت بہتر لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک جاننے والی خاتون سے ملاقات
ہوئی، انہوں نے مجھ سے ایک بات کہی کہ
بیٹا اللہ تعالیٰ وقتی طور پہ سہی لیکن کچھ لوگوں کو آپ کی زندگی میں بھیجتے ہیں تاکہ آئندہ
آپ ایسے کئی دوسرے لوگوں سے ملتے وقت
احتیاط برتیں۔
لکھاری معاشرے کے باقی افراد سے کئی زیادہ فطرتاً حساس طبع
ہوتے ہیں۔ بطور لکھاری انسان کو وہ کچھ بھی دکھائی، سنائی اور سجھائی دے رہا ہوتا
ہے جو عام شخص کے مشاہدے میں نہیں آتا۔ بحیثیتِ لکھاری میری یہی طبیعت اکثر مجھ پر
حاوی رہتی ہے جس میں اکثر ہی حالت بڑی عجیب سی ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات زندگی میں کبھی
جذبات کا اظہار بھی کرنا ہوتا ہے اور کہیں بے حسی کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔
2019 میں مجھے دِلوں میں وسعتیں بہت کم نظر آئیں۔میں نے اس برس پہلے سے بھی زیادہ
محبتوں، نفرتوں اور دیگر رویوں میں تفرقے دیکھے ہیں۔اپنے لیے اصول وقواعد الگ، مگر
جیسے ہی کسی اور پر انہیں لاگو کرنے کی باری آئی تو وہی قاعدے پلٹ گئے۔ارد
گردسوچوں اور رویوں میں واضح طور پر تضاد
رہا۔انصا ف کی مسند پر وہ لوگ براجمان ہوئے جو اس کے مستحق اوراہل ہی نہیں تھے۔خود
ساختہ اور نام نہاد منصفین مدعی کو سُنے بغیر اپنے تئیں فیصلہ صادر کرنے والوں کے
ساتھ جب ان کے اپنے معاملے میں ناانصافی
ہوئی تو تب 2019 نے ان کی زبان سے "اللہ بہت بڑا منصف ہے"جیسا کلمہ ورد
کرتے ہوئے سُنا۔
رب دِلاں وچ وسدا ای
دل تروڑ کے توبہ کیتی کر
ہمارے ہاں تعلقات میں فاصلے پیدا ہونے کا تذکرہ کیا جاتاہےجبکہ
استادِ محترم ہمیں گلے شکوے کرنے سے منع فرماتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ دوسروں سے
شکوہ شکایت کرنے کی بجائے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے۔ہمارے معاشرے میں ہم
سب کو ہی اصلاح اور اپنے اندر احساس پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب ہم کسی سے کوئی
لفظ یا جملہ بول دیتے ہیں یا کوئی ایسی قابلِ مزمت حرکت سرزد کرتے ہیں تو ہمیں
اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اگلے بندے پر کیا گزر رہی ہے۔ یقین کیجئے یہی رویے تعلقات
میں دوری کا سبب بھی بنتے ہیں۔ یہ انتہائی
سوچ وچار والا معاملہ ہے مگر اس پر کوئی مُثبت بات کرنے کی بجائے منفیت پھیلائی
جاتی ہے۔ استادِ محترم فرمایا کرتے ہیں کہ ڈی سیلف ہو جائو اور اتنا کہ
اگر کوئی تمہیں ذلت اور عزت بخشے
تو تمہیں اس سے کوئی فرق نہ پڑے۔ یہ اصول آپ کی اپنی اور خود کی ذات کے لیے ہے
دوسروں کے ساتھ برتائو کرتے وقت کےلیے نہیں ہے۔ جب کوئی عاجزی و
انکساری اور احترام سے آپ کے ساتھ پیش آتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا
کہ آپ
جب،جیسے اور جہاں چاہیں اس کی تذلیل کریں۔
جب رویے، لوگ یا
چیزیں انسان سے دور ہو جائیں تو اس پر پریشان ہونا ایک فطری امر ہے۔لیکن اگر اللہ
آپ سے کچھ لیتا ہےتو اس کے بدلے اُس سے بہترین آپ کو نواز بھی دیتا ہے۔ الحمداللہ اس
بات پر میرا ایمان سال2019 میں اور بھی پختہ ہوا۔ اللہ نے کہاں اور کیسے اتنی
اعلیٰ نعمتوں اور کامیابیوں سے نوازا کہ میں خود حیران رہ گئی۔ میں نے ان حاصل
کردہ نعمتوں کے بارے کسی سے تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا، اس لیے صرف گِنتی کے چند
قریبی لوگوں کے سوا ان کے بارے کوئی نہیں جاتا۔ اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے
چاہے ذلت دیتا ہے۔ زمین کےباسی خود کو زمینی خدا سمجھ کر ایک دوسرے کو تباہ کرنے
کے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں۔ وہ یہ بات نہیں جانتے کہ اللہ جو حق اور سچ ہے، جان، مال اور ناموس کی حفاظت
کرنے والا اس سے بڑا اور بہترین مضبوط منصوبے، ارادے والا قادر و کارساز اورکوئی
دوسرانہیں ہوتا۔
اپنی قلمی کاوش کی بات کروں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے قلمی
حوالے سے سال 2019میں بھی بے حد نوازا کہ
میری قلمی کاوش کی مقبولیت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اپنی ویب سائٹ قلمی کاوش کو اس مرتبہ میں نے نئے سرے سے ترتیب دیا۔ اور
اس سفر میں میری بہت پیاری دوست لکھاری راحیلہ کوثر میری ہم سفر رہی۔ ویب سائٹ کو
لے کر بہت سے تکنیکی مسائل درپیش رہتے ہیں جو کچھ تو میری سمجھ میں آجاتے ہیں اور
کچھ راحیلہ کی۔ جبکہ بعض تکنیکی پیچیدگیاں ہم
دونوں کے سر سے گزر جاتی ہیں جن پر قابو پانے کی تگ دو میں ہم اکثر ہی لگے
رہتے ہیں اور اب تک لگے ہوئے ہیں۔ مجھے اپنی اور راحیلہ کی تحریروں کے حوالے سے
وسیع تعداد میں حوصلہ افزا ئی ، پسندیدگی
اور دعائوں کے ڈھیروں پیغامات ملتے
رہتے ہیں ، آپ تمام قارئین کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ۔
2019رخصت ہو رہا ہے اور جاتے ہوئے مجھے بتا رہا ہے کہ جو وقت پڑنے پر تمہارے ساتھ کھڑا ہو
کر تمہارے لیے نہ لڑ سکا اور جس کے دل میں
تمہارے لیے چاہت ہی نہیں ہےوہ تمہارا ہے ہی نہیں، نہ پہلے کبھی تھا۔ دوسری بات میں
وہ یہ کہہ رہا ہے کہ کوئی تمہارے ساتھ زیادتی
یا نانصافی کرے تو اسے ایک سے زائد بار اس لیے موقع دینا کہ شاید اگلی
مرتبہ وہ اپنی غلطی کا ازالہ کرلے،اچھی بات ہے۔ مگر اس سے زیادہ کی اسے اجازت دینا
اپنے آپ کو تاعمر اذیت دینے کے مترادف ہے۔ آخری بات اس نے مجھ سے یہ کہی ہے کہ جب تم
حق پر ہو اور باطل چھپ کر یا پوشیدہ نقصان ، تکلیف اور رنج پہنچانے کو تم پر وار
کرےتو یاد رکھنا کہ جس وقت تم حق پر ڈٹ کر
کھڑے ہو جاتے ہو تو تب اللہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔
ابھی رات کے اس آخری پہر
میرے اندر کا انسان میری جانب دیکھ رہا ہے جو کبھی تو مجھے سراہ رہا ہے اور
کبھی مجھ پر ناراض سی نگاہ بھی ڈال لیتا ہے۔
2020 کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ میری بہت سی قلمی کاوشیں میری منتظر مجھے آواز
دے رہی ہیں۔ کچھ تو بالکل نئی ہیں اور کچھ وہ ہیں جنھیں مکمل کرنے کا ارادہ میں ہر
بار کرتی ہوں لیکن وہ میری کسی اور ہی مصروفیت کے باعث متاثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔سال
2020کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا
لاتے ہوئے کرتی ہوں کہ جو ہمیشہ سے بہترین
انداز میں مجھے اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے ہوئے ہے۔نئے سال کی آمد پر میرے تمام
قارئین کے لیے میری بہت سی نیک خواہشات ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھی راہ
دکھائے، اُن لوگوں کی راہ جن پر اُس نے انعام کیا۔ اللہ ہم سب کو منفیت سے بچائے اور مثبت رہنے کی
توفیق عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ سے دعا میں یہ بھی درخواست کرتی ہوں کہ ظالموں میں ہماراشمار نہ ہو، ہمیں ظالموں کا ساتھ دینے والو
ں میں وہ کبھی نہ رکھے کیونکہ اللہ کو
انصاف کرنے والے پسند ہیں۔اللہ ہمیں جھوٹ اور حق و سچ میں فرق کا علم عطا فرما دے۔ اللہ کرے کہ مذہبی اعتبار
سے ہمارے لیے یہ سال بہت اچھا ہو اور اللہ ہمارے دلوں میں ایمان کو اس طرح قائم کر دے کہ ہر جانب اسلام کا ہی
بول بالا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں امن و سلامتی رکھے، اس کی حفاظت اور اسے ترقی
عطا فرمائے۔قوم میں محبت، ایثار ویکجہتی پیدا کردے، ہمیں دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا فرمائے ۔ہم سب ہمیشہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتوں کے سائے
میں رہیں، آمین۔
از قلم، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں