یوم یکجہتی کشمیر کا پس منظر

تحریر : راحیلہ کوثر

یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ حسب روایت اس مرتبہ بھی 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر  قومی سطح پر منایا جا رہا ہے۔ 5 فروری کے یوم یکجہتی کشمیر کا پس منظر اور بحیثیت پاکستانی منائے جانے کی اہمیت پر آج میں روشنی ڈالوں گی۔
 یہ جدوجہد تقسیم برصغیر سے بھی قبل ڈوگرہ استبداد کے خلاف اہلِ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی ہی کا تسلسل ہے۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بنیادی اصولوں  کو نظرانداز کرکے بھارتی قیادت اور برطانوی وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے مہاراجا کشمیر سے سازباز کرکے الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز کے تحت کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا تو ریاست میں بغاوت پنپ اٹھی۔ تحریک جہاد کے نتیجے میں کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کرا لیا گیا۔ مجاہدینِ کشمیر کے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ بھارت کے مکرو فریب سے  جہادِ کشمیر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے نیچے دب گیا۔ سلامتی کونسل کی ان قراردادوں میں کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا گیا کہ انہیں رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن بھارت نے ایسی ہر کوشش کو کمزور کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلم تشخص کو ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر قتل عام کا سہارا لیا۔  پاکستان نے  1965ء میں بین الاقوامی اداروں سے مایوس ہوکر گوریلا جنگ کے ذریعے بھی کشمیر کی آزادی کی کوشش کی جو بعد میں تاشقند معاہدے پر منتج ہوئی اور مسئلہ کشمیر بین الاقوامی مسئلہ کی بجائے ایک دو طرفہ مسئلہ بنادیا گیا۔1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد شملہ معاہدے میں رہی کسر بھی پوری کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے درگور کردیا گیا۔ شملہ معاہدے کی رو سے تحریک ِآزادیٔ کشمیر کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تمام سرگرمیاں بند کردی گئیں تاکہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات خراب نہ ہوں۔ مقبوضہ کشمیر کی تمام حریت پسند تنظیمیں اور قائدین 1987ء کے ریاستی انتخابات کے موقع پر مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے منظم ہوگئے۔ اس اتحاد نے وادی کشمیر میں بالخصوص اور باقی مسلم اکثریتی علاقوں میں بالعموم انقلاب کی ایک لہر دوڑا دی۔ MUF کے قائدین کا پروگرام تھا کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد اسمبلی کے پلیٹ فارم سے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کی نفی کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، لیکن بھارت نے خوفزدہ ہوکر اندھا دھند دھاندلی کی اور من مانے نتائج کے حصول کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔ اس بھیانک دھاندلی کے بعد کشمیری نوجوان اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارت سے آزادی کے حصول کے لیے سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ عسکری سطح پر بھی جدوجہد کرنا پڑے گی۔ چنانچہ 1988ء میں اس حوالے سے تیاریاں شروع ہوگئیں۔  1989 میں بھارتی پارلیمان کے لیے ریاست میں انتخابات ہوئے جن کا مکمل بائیکاٹ ہوا۔ 1987ء میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام سے لے کر 1989ء کے بھارتی پارلیمانی انتخابات تک آزادی اور انقلاب کی لہر پوری مقبوضہ ریاست کو قبضے میں لے چکی تھی۔فروری 1990ء میں بھارتی مظالم سے تنگ آکر ہزاروں کی تعداد میں لوگ آزادکشمیر پہنچنا شروع ہوگئے۔پانچ جنوری کی پریس کانفرنس  میں جماعت اسلامی کے محترم قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ 5 فروری 1990ء بھرپور طور پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے تاکہ کشمیریوں کو اعتماد دلایا جائے کہ پاکستان کی پوری قوم ان کی پشت پر ہے۔ اُس وقت صوبہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی جبکہ مرکز میں پیپلزپارٹی برسراقتدار تھی۔ جماعت نے ان کی وساطت سے صوبہ پنجاب میں سرکاری سطح پر اس دن کو منانے کی توثیق حاصل کی۔ میاں نوازشریف صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اس کی کامیابی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ رائے عامہ کے دباو کے نتیجے میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی قاضی صاحب کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اس فیصلے کی توثیق کی۔ یوں پہلی مرتبہ 1990ء میں 5 فروری پاکستان کی حکومت، اپوزیشن، تمام سیاسی جماعتوں اور ہر عوامی پلیٹ فارم پر یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا، جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے اندر بے پناہ مثبت پیغام پہنچا اور بھارتی استبداد کے خلاف جذبے مزید جواں ہوگئے۔ اس کے بعد  سے پانچ فروری کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا قومی دن بن چکا ہے۔ ہر سال پانچ فروری کو پوری پاکستانی قوم گویا ریفرنڈم کردیتی اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ایک پیغام پہنچتا ہے کہ کشمیری اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں ۔ پاکستان کی کوششوں ہی سے OIC میں بین الاقوامی اور بین الاسلامی اداروں میں مسئلہ کشمیر ایک فلیش پوائنٹ کی حیثیت سے اجاگر ہوا۔
  تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی شروع سے یہ پالیسی رہی ہے کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی تناظر سے علاقائی اور دوطرفہ سطح پر آجائے اور مقبوضہ کشمیر کے اندر جبر وتشدد اور لالچ و ترغیب سے ایسے حالات پیدا کرلیے جائیں کہ تحریک آزادی کی چنگاری تک نہ رہے۔ بھارت کے نزدیک یہ اُس وقت ممکن ہے جب کشمیریوں کو پاکستان کے کردار سے مکمل طور پر مایوس کردیا جائے۔ اسی بد نیتی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے گزشتہ سال مودی نے 5اگست سے کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے اور کشمیریوں کو تمام بنیادی سہولیات سے محروم کیےہوا ہے ۔ اس ضمن میں 27 ستمبر 2019 کو UN کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان صاحب نے   اپنی تقریر سے اس مسئلے کی سنگینی اور کرفیو ختم ہونے کے بعد کی   کشمیری بغاوت کے نتیجےمیں پیدا ہونے والے خدشات و حالات کی شدت پر بھی روشنی ڈالی مگر کسی کے سر میں جوں تک نا رینگی۔بھارت کی لائین آف کنٹرو ل کی خلاف ورزیوں اور حدود کی بالادستیوں پر جب پاکستان نے ایکشن لینے کا اعلان کیا تو امریکہ ثالثی بننے کو تیار ہو گیا ۔ تمام دنیا نے مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ہاتھ پر ہاتھ مار کر خوشگپیاں تو دیکھیں مگر پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے ان کے عملی اقدامات سخت اور بے حسی کا شکار  ہی رہے جس کے نتیجے میں بھارت کو مزید شہہ ملی اور کشمیری اب تک قیدو بند کے شکار ہیں ۔ پاکستان جب بھی کوئی قدم اٹھانے کا قصد کرتا  ہے تو عالمی امن آڑے آجاتا ہے مگر بھارت کے کشمیر مظالم اور وادی میں انگار برپا کرنے پر کسی کو عالمی امن کے لالے نہیں پڑتے۔

 ان حالات میں یوم یکجہتی کشمیر منانے کا تقاضا یہ ہے کے ہم کشمیریوں کی آواز بنیں اور بھارت کا بھیانک چہرہ اور گریٹر بھارت کا جنوں دنیا کو بار بار دیکھائیں کہ عالمی طاقتوں کی توجہ اس مسئلہ کے حل کی جانب مرکوز ہو اور کشمیری آزاد فضا میں سانس لے سکیں  ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟