ڈاکٹر مہوش اعجاز کے لیے نیک خواہشات

کل شام  کی فیملی گیدرنگ اللہ کی برکت اور رحمت سے الحمداللہ بہت اچھی رہی۔ بس انابیہ (بہن)،  محمد ولی(بھانجا)  اور جنید عرف جوجی کی کمی محسوس ہوتی رہی  کہ وہ ہوتے تو محفل کا لطف ہی دوبالا ہو جاتا۔ ہمارے گھرمیں ایسی محفل  بہت دنوں  بعد جمی اور خوب جمی ۔ ہماری پیاری بہن ڈاکٹر مہوش عرف چندا میڈیکل کی ہائر اسٹڈیز کے لیے بیرونِ ملک روانہ ہو رہی ہے۔یہاں  گھر سے اسپتال اور اسپتال سے گھر  تک اس کا زیادہ تر وقت اس کی ڈیوٹی آورز کی نذر ہو رہا ہوتا ہے۔ باقی سب لوگ بھی اپنے معمولاتِ زندگی سے جڑے رہتے ہیں تو اپنی اپنی مصروفیات کے باعث بہت کم  ہی ہم سب کی یہ مشترکہ  اورپُر رونق محافل سج پاتی ہیں۔ اوراس محفل کو سجانے کا مقصد یہ تھا کہ چند دن بعد اس کی پاکستان میں غیرموجودگی کی وجہ سے اتنی جلدی مل بیٹھنے کا موقع میسر نہیں آ سکے گا۔  

چندا کے والد اعجاز انکل  جو محکمہء تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں  انہوں نے کل مجھ سے کہا کہ آج کی محفل  اور چندا کے پاکستان سے روانگی پر لکھنے کا کیا ارادہ ہے؟آنٹی(چندا کی والدہ) شفیق علی، رمشا اور حمزہ (چندا کے بھائی بہن) نے بھی ان کی اس بات کی تائید کی تو میں ہنس دی کہ اس پر ضرور لکھوں گی۔ کل شام سب سے پہلے نچلی منزل یعنی ہمارے پورشن میں  شفیق علی عرف علی کی تشریف آوری  ہوئی۔  حسبِ عادت اور اتفاق سے رونما ہونے والے واقعات  کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے  ہماری والدہ سے پوچھا  گیا، "آنٹی مجھے لگتا ہے کہ یقیناً آج بھی دال ہی بنی ہو گی۔ " اورکچن میں کھڑی سلاد بناتے ہوئے  اُس وقت میں نے جس طرح اپنی ہنسی پر قابو پایا  اللہ گواہ ہے اور میرا قلم بھی کہ اِس وقت  میں یہ بات لکھتے ہوئے بھی ہنس رہی ہوں کیونکہ شام کے اس وقت تو نہیں لیکن دوپہر کے کھانے میں واقعی دال ہی بنی ہوئی تھی۔ مما کہتی ہیں کہ علی کی چھیڑ ہی بن چکی ہے کہ وہ جب بھی کھانے کا مینو پوچھتا ہے تو اتفاق سے ہمارے ہاں اس دن دال ہی بنی ہوتی ہے۔  اور مجھے بھی یہ بات نہیں سمجھ آ سکی کہ ایسا تب کیوں نہیں ہوتا جب کوئی اور سالن بنا ہو ۔

علی کے ساتھ ساتھ حمزہ عرف چاند اور طلحہ عرف سی بی  اور باقی سب بھی داخل ہوئے۔ رمشا اور آنٹی میرے کہنے کے باوجود بھی  میز  پر کھانا چُننے میں میری معاون رہیں۔ ان سب کے ساتھ مزیدار اور خوش گپیوں میں وقت کیسے گزرا اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا۔ آج کا دور چونکہ موبائل کا دور ہے جب  سب ساتھ موجود بھی ہوں تو بھی ہر کوئی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے  زیادہ تر اپنے اپنے موبائلوں میں سر دیے بیٹھے ہوتا ہے۔ اکثر کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دوست، بہن بھائی مل کر بیٹھیں تو لڈو ،کیرم، کرکٹ، موسیقی ، فلم وغیرہ  سے لطف اندوز بھی ہورہے ہوتے ہیں۔  لیکن کل کی محفل میں مجھے جوسب سے اچھی  بات محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ ہماری آپس کی گپ شپ ہی ان سب چیزوں پہ اتنی بھاری تھی کہ دوسری سرگرمیوں کی طرف ہم میں سے کسی کا بھی دھیان نہیں گیا۔

پچھلے دنوں جب جوجی آسٹریلیا سے آیا تو ہم سب اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جوجی مجھے بڑی دیدی اور انابیہ(میری بہن )کو چھوٹی دیدی کہتا ہے۔ہماری اطلاع کے مطابق وہ ایک ماہ کے لیے ملنے آیا تھا لیکن  اسے پاکستان آئے ابھی  محض چار دن ہی ہوئے تھے تو  ہمارے اس بھائی نے ہمیں اپنی واپسی کی اطلاع دی۔ سی بی نے اسے سُن کر کہا کہ "بھائی  ابھی تو آئے ہو اور اتنی جلدی واپسی؟ تم نے تو ہمارے سروں پر سوٹا (ڈنڈا) ہی دے مارا ہے۔" جوجی اس کی بات پر بے ساختہ ہنسا۔ اس سنجیدہ ماحول میں چاند کو بھی اس بات پرہنسی آ گئی۔ جوجی کو ائرپورٹ پر سی آف کرنے جانا تھا۔سب نے مجھے ساتھ چلنے کو کہا لیکن میں نے اس وقت   بھی انکار کر دیا ۔ جوجی نے مجھ سے وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ تمہیں ائر پورٹ سی آف کرنے کی بات پر مجھے "بھائی بشیر فور مین" کا واقعہ یاد آ گیا ہے۔ سی بی میری بات سُن کر بے تحاشا ہنسا۔ جوجی نے نا سمجھی سے ہمیں دیکھا اور پوچھا کہ "بڑی دیدی! یہ بھائی بشیر فور مین کون ہے؟" تو میں نے اسے  ڈرامہ سونا چاندی  کے کردار بھائی بشیر فور مین اور اس کے گھر والے اور دوستوں کا مختصر قصہ بتایا۔ مجھے آنٹی سمیت سب کہہ رہے ہیں کہ چندا کو ایئر پورٹ چھوڑنے ہم سب نے جانا ہے تو تم بھی چلو۔مگرمیں نے انکار کر دیا ہے۔علی نے پوچھا کہ کیوں باجی  کیا آپ  ایموشنل ہو جاتی ہیں؟ تو میں نے کہا کہ ایموشنل ہو جانا تو ویسے ہی ہر انسان کے لیے نیچرل ہے لیکن میں جذبات پر قابو کر لیتی ہوں۔
پیاری چندا ! اپنے نام کی طرح ہمیشہ جگمگاتی رہو اور تمہارے دم سے ہر سُو اُجالا رہے۔ تم جس مخلوص  ِ نیت سے اپنی صلاحیت کی بدولت انسانی خدمت کے پیشے سے منسلک ہوہمیشہ اپنے لوگوں  اور باقی سب کے حق میں  بھی یونہی رہو اور اس شعبے میں کامیاب رہو۔ میری خواہش  اور دعا ہے کہ  جیسے اس گھر میں تمہارا میڈیکل کا ایگزام کلیئر ہونے پر مجھے گھر کے بالائی پورشن سے آنٹی اور تمہاری  خوشی سے چلاتی آوازیں سُنائی دیں تھیں ایسے ہی بیرونِ ملک جا کر تمہارے میڈیکل  کی پڑھائی کے اس امتحان کو پاس کر لینے کے فوراً بعد آنٹی اور تمہاری خوشی کے جذبات سے پُرآواز سننے کو ملے ۔ اور وہ چاہے فون پر ہو یا ہمارے پاس آکر براہِ راست رُوبرُو ہو۔اللہ تمہارے دامن کو ڈھیروں  خوشیوں سے بھر دے، آمین۔

از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟