پاکستان کرکٹ بورڈ کے رکن سابق ٹیسٹ کرکٹر ذاکر خان صاحب کے نام
پاکستان کرکٹ بورڈ کے رکن سابق ٹیسٹ کرکٹر ذاکر خان صاحب کے نام
کرکٹ ، خاص طور پر پاکستانی کرکٹ کے لیے میری پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ میں اکثر قومی ٹیم کے وہ میچز بھی دیکھ رہی ہوتی ہوں جن سے عام طور پر شائقین کو اتنی دلچسپی نہیں بھی ہوتی۔ ایک دن ہمارے گھر بھائی کا دوست آیا اور مجھے ایک پرانے میچ کی جھلکیاں یوں محو ہو کر دیکھتے پایا تو حیران رہ گیااور کہنے لگا کہ "علینہ آپی پہلی بار کسی لڑکی کو اتنے اشتیاق سے کرکٹ میچ وہ بھی ہائی لائٹس دیکھتے ہوئے دیکھ کر میں تو حیران ہو رہا ہوں۔" میرے زمانہء طالبعلمی میں بہت بار ایسا ہوتا آیا ہے کہ پیپرز کے دنوں میں بہت اہم میچز، کوئی خاص سیریز یا ورلڈ کپ کے میچز ہو رہے ہوتےتھے تب میں جھنجھلاجاتی اور سوچتی کہ کرکٹ کے میچز کا شیڈول بنانے والے لوگوں یا میرے ایگزامز کی ڈیٹ شیٹ بنانے والوں کے ساتھ مجھ سے جانے انجانے میں ایسی کیا گستاخی ہو گئی ہے کہ جس کا بدلہ ہر بار مجھ سے یوں لیا جاتا ہے۔
جب میں بہت چھوٹی تھی تو اپنے ننھیال اور ددھیال میں کرکٹ میچ کے لیے سب کو بہت جنونی دیکھا کرتی تھی۔ اُس وقت کم عمری اور نادانی کے باعث سب کو میچ دیکھتے پا کر اُکتا جاتی تھی۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرے بچپن میں کرکٹ میچ کی کوئی سیریز چل رہی تھی اور میں نے اپنے ننھیال میں موجود نانا ابو، ماموں جان اور باقی کزنز کو ٹی وی کے سامنے اس قدر شوق سے نگاہیں جمائے دیکھاتو اپنے سے عمر میں بڑے ماموں زاد بھائی سے پوچھا کہ بھائی آپ لوگ کیا بورنگ سی چیز دیکھتے رہتے ہو؟ اس نے کہا بورنگ کہاں بھئی؟ کرکٹ تو اتنا انٹرسٹنگ گیم ہے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟تو اس نے ہر اوور کے بعد چلنے والے اشتہارات کے دوران مجھے مختصراً کرکٹ کے بارے میں رولز وغیرہ بتائےکہ اسکور کیا ہوتا ہے، آؤٹ کیسے ہوتا ہے، باؤنڈری پہ بال جائے تو چوکا یا چھکا ہوتا ہےوغیرہ۔بریک ختم ہوا اور میچ کی نشریات دوبارہ شروع ہوئیں تو میں بھی ان سب کے ساتھ بیٹھ کے میچ دیکھنے لگی۔
اس کے بعد مجھے کرکٹ کے بارے میں آہستہ آہستہ شوق پیدا ہو تاگیا یعنی صورتحال کچھ یوں ہوتی گئی کہ جب بھی ملاقات ہوتی میں اپنے ماموں زاد بھائیوں سے زیادہ تر اسپورٹس پر ہی گفتگو کر رہی ہوتی کہ فلاں میچ دیکھا، فلاں کی پرفامنس ایسی تھی ، مبارک ہو میچ بہترین انداز میں جیت گئے۔جب وہ لوگ گھر میں اکھٹے ہو کرآپس میں کرکٹ کھیلتے تو میں کمنٹیٹر بنی کمنٹری کر نے کی ناکام سی کوشش کر رہی ہوتی۔ میں نے ریڈیو پر اردو اور انگریزی بیک وقت دونوں زبانوں میں بہت سے لوگوں کو کمنٹری کرتے سُن رکھا تھا سو میں بھی اس وقت وہی انداز اپناتی اور تب ذہن میں موجود میرے پسندیدہ معروف کمنٹیٹر ٹونی گریگ اور رمیز راجہ ہوتے۔ کھیل ختم ہونے کے بعد میں اپنے چھوٹے والے ماموں زاد بھائی فیضان(فیضی) سے پوچھتی کہ میری کمنٹری کیسی تھی؟ اچھی تھی نا؟ وہ جواباً میری حوصلہ افزائی کے تحت کہتا کہ اے ون، فِٹ، فرسٹ کلاس، زبر دست۔ جبکہ ساتھ کھڑا سی بی (بھائی طلحہ) ہنس رہا ہوتا اور میں ہنسنے کی وجہ پوچھتی تو کہتا ،"ہمیں کیا پتا تم کیا کہہ رہی تھیں ہمارا فوکس تو اپنی گیم پر تھا اور سارے کرکٹرز ایسے ہی کرتے ہیں وہ جب گراؤنڈ میں کھیل رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ان کا سارا دھیان اپنی گیم پر ہوتا ہے، وہ یہ تھوڑی سن رہے ہوتے ہیں کہ اس وقت کمنٹری باکس میں بیٹھاکون سا کمنٹیٹر کیا کہہ رہا ہے۔" یہاں یہ بات بھی کہتی چلوں کہ مجھے کرکٹ میچ میں دلچسپی تو بہت ہے لیکن صرف دیکھنے کی حد تک۔ آپ لوگ مجھے چشمِ تصور میں ہاتھوں میں گیند اور بلا تھامےکرکٹ کھیلتے ہوئے ہر گز بھی نہ سوچنے لگ جائیے گا۔
کرکٹ کی بات ہو رہی ہے تو کرکٹر ز کو بھی ہمارے قومی ہیروز میں ہی شمار کیا جاتا ہے کیونکہ وہ عالمی سطح پہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے ملک کا نام روشن کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہوتےہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے گوگل پہ سرچنگ کرتے ہوئےمعلوم ہوا کہ آج یعنی 3 اپریل کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے رکن سابق ٹیسٹ کرکٹر ذاکر خان صاحب کی سالگرہ ہے ۔ہمارے والد صاحب کے ساتھ ان کا بڑی محبت اور دوستی کا رشتہ ہے۔ میری اُن سے اب تک ظاہری طور پر تو بڑی مختصر سی ملاقات رہی ہے لیکن جتنی اور جب بھی بات چیت ہوئی بڑی اچھی اور بے حد خوشگوار رہی۔میں پہلی مرتبہ ایک اسلامی و علمی محفل میں ان سے ملی۔میں نے پاپا اور اپنے بھائی طلحہ عرف سی بی سے اُن کا غائبانہ تعارف سُن رکھا تھا، مجھے معلوم ہوا کہ وہ بھی اس محفل میں شریک ہو رہے ہیں تو پاپا سے کہا کہ مجھے بھی ان سے ملوائیے گا۔ تقریب کے اختتام پر اپنے والد صاحب کے توسط سے ان سے ملاقات ہوئی۔ پاپا نے مجھے ان سے ملوانے کے لیے بلایا تو مجھے دیکھتے ہی پاپا سے کہنے لگے، ظفر بھائی یہ ہماری بیٹی ہے نا؟مجھے ان کے الفاظ نے گرویدہ بنا لیا۔زندگی کے کسی موڑ پر کچھ لوگ آپ کو ملتے ہیں تو بہت جلدی وہ اپنی شخصیت کے مثبت اثرات مرتب کر جاتے ہیں اور جناب ذاکر خان صاحب بھی بلا شبہ انہی لوگوں میں شامل ہیں۔ قومی ہیروز کے لیے عزت اور احترام تو ہے ہی لیکن جناب ذاکر خان صاحب کے میرے لیے استعمال کیے جانے والے ان دو الفاظ "ہماری بیٹی"سے میرے دل میں اُن کے لیے موجود عزت مزید بڑھ گئی۔ میں نے سی بی (طلحہ) سے ان سے ملاقات کے بعد اپنے تاثرات شیئر کیے تو کہنے لگا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ بے شک وہ ایک گریٹ پرسنیلٹی ہیں اور میں اب تک ان سے جتنی مرتبہ بھی ملا ہوں ہمیشہ مل کر بہت اچھا لگا ۔
اگر کسی میچ میں قومی ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ جا رہی ہو، اپنی ٹیم کا کوئی کھلاڑی آؤٹ ہو جائے، ان سے مخالف ٹیم کا کیچ ڈراپ ہو جائے یا کسی بھی طرح اسکور اچھا نہ جا رہا ہو تو یقین کیجئے دل پہ گھونسا پڑنے کی سی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ میرے ساتھ ایسا کوئی میچ دیکھتا میرا بھائی سی بی (طلحہ)بھی تقریباً ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہو رہا ہوتا ہے لیکن میری حالت دیکھ کر خوب حِظ اُٹھا تے ہوئے کوئی نہ کوئی چُٹکلا مجھے ہنسانے کے لیے چھوڑتا رہتا ہے تاکہ میں کرکٹ میچ کو لے کر کسی قسم کاکوئی دباؤ یا اسٹریس محسوس نہ کروں اور ریلیکس ہو کر گیم دیکھوں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ذاکر انکل اور پاپا کسی جگہ سے لاہور واپسی کے لیے گاڑی میں سفر کر رہے تھےتو اس دن بہت اہم کرکٹ میچ ہو رہا تھا اور پاکستان کی گرفت بھی اس کھیل پر بہت زیادہ مضبوط تھی۔اس وقت ریڈیو کے کسی بھی چینل پر اس میچ کی لائیو کمنٹری نشر نہیں کی جارہی تھی کہ وہ دونوں گاڑی میں ہی دورانِ ڈرائیونگ اس میچ کا حال جان سکتے۔ پاپا میرے نمبر پہ کال کر کے اس انتہائی سنسنی خیز مقابلے کا حال میری زبانی سُن رہے تھے اور ساتھ ساتھ ذاکر انکل کو بھی بتا رہے تھے کہ اب فلاں گیند، فلاں رنز، فلاں وکٹیں درکار ہیں اور کونسے کھلاڑی کریز پر موجود اور کون باؤلنگ کر رہا ہے۔جیسے ہی ٹی وی اسکرین پر ہم نے میدان میں پاکستانی کھلاڑیوں کو فتح اپنے نام کرتے پایا تو بے ساختہ ہی با آوازِ بلند ہم تینوں بہن بھائی نے خوشی کے مارے نعرہ لگایا جس پر مجھے یقین ہے کہ پاپا کے کان سے لگے موبائل کے پار لاؤڈ اسپیکر آن نہ ہونے کے باوجود بھی ہماری آواز سُنی گئی ہو گی۔ مما نے اس لمحے اس بات پہ ڈانٹا بھی تھا کہ تم لوگوں کی آواز گھر سے باہر تک سُنی جارہی ہے۔میں نے پنجاب کے سفر پہ نکلے پاپا کے متعلق فون کال پر بات کرنے کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں مما، اس وقت پورا پاکستان تو نہیں لیکن آدھے پنجاب نے تو یہ آواز سُن بھی لی ہو گی۔
جب پاکستان کرکٹ ٹیم میچ جیتے تو بے حد خوشی ہوتی ہے جس کا اظہارمیں جناب ذاکر خان صاحب کو میسجز پر مبارکباد دے کر کرتی رہتی ہوں بلکہ پاپا اکثر کہتے ہیں کہ ذاکر بھائی کو ابھی مبارکباد لکھ کر بھیج دو۔ اس کے علاوہ میں مختلف موضوعات پر مبنی اپنی تحریریں انہیں بھیجتی رہتی ہوں اور میرا اکثر ان کے ساتھ واٹس ایپ پر پاکستان سے محبت پر مبنی میسیجز کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ میرے لیے ہر وہ شخص قابلِ احترام ہےجس کی وجہ سے دنیا پر میرے ملک کی مثبت تصویر نقش ہوتی ہواور اس کے دل میں پاکستان سے اس قدر بے پناہ محبت موجود ہوکہ بغیر کسی ذاتی مفاد اور لالچ کے وہ اس وطن کے لیے خدمت کےجذبے سے ہمہ وقت سرشار رہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاکستانی سابق ٹیسٹ کرکٹر اور پی سی بی کے حالیہ رکن جناب ذاکر خان صاحب کو ہمیشہ خوشیوں اور صحت والی کامیاب زندگی عطا فرمائے، اپنے خاندان پر اُن کا سایہ سلامت رہے، پاکستان کرکٹ کا میدان اُن کی خدمات کی بدولت مستفید ہوتا رہےاور اُن کی طرح ہر پاکستانی کا دل جذبہ ء حُب الوطنی سے پُر نور رہے،آمین۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں