چاکلیٹ کا عالمی دن

آج (7 جولائی 2020)چاکلیٹ کا عالمی دن منایا جارہا ہے ۔ دنیا بھر میں چاکلیٹ کو بطور میٹھا خوشی کے مواقع پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب تو ہمارے ہاں بھی شادی بیاہ کی تقریب میں چاکلیٹ کےاستعمال کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔چاکلیٹس کو مختلف ڈیزرٹس میں بنا کربھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بسکٹس اور ویفرزمیں ملا کراسے کھانا پسند کرتے ہیں اور بعض خشک میوہ جات اور خوش ذائقہ کھٹے میٹھے پھلوں کے ساتھ پسند کرتے ہیں۔ میری طرح چاکلیٹ کے شوقین افراد انواع و اقسام کے طریقوں سے ملی چاکلیٹ کے ساتھ ساتھ اسے یوں ہی کھانا بھی پسند کرتے ہیں۔
 چاکلیٹ میں چینی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے دانتوں کی خرابی اورموٹاپے جیسی دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں۔اس لیے اس کے غلط اور کثیر استعمال سے گریز کرنا چاہیئے۔چاکلیٹ کا صحیح اور بہتر استعمال ہماری صحت کے لیے مفید بھی ہے۔تحقیق کے مطابق چاکلیٹ کو دماغ کے لیے بہترمانا جاتا ہے۔ اسے تقویت بخش اور اینٹی ڈیپریسنٹ بھی سمجھا جاتا ہے ۔ کوکو پھل، چینی، دودھ اور مکھن کے ملاپ سے تیار کردہ مزیدار سی چاکلیٹ کا ٹکڑا منہ میں گھُلتے ہی ہمارے موڈ کو بہتر اور خوشگوار بنا دیتا ہے۔ چاکلیٹ اینٹی آکسیڈینٹ ہے جو ہمارے جسم میں موجود خلیوں کے بچاؤ کاکام کرتی ہے، اس لیے یہ جلدکی حفاظت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ چاکلیٹ بالخصوص ڈارک چاکلیٹ ذیابطیس اور دل کی بیماریوں سے بچاتی ہے۔
چاکلیٹ سے میری بہت سی پیاری و حسین اور میٹھی یادیں وابستہ ہیں۔ مجھے اپنے والد کے ساتھ مل کر چاکلیٹ کھانا اچھا لگتا ہے۔وہ صحت مند غذا پر توجہ دیتے ہوئے اب میٹھا کھانے کو اتنی زیادہ ترجیح نہیں دیتے اور کبھی کبھار بہت قلیل مقدار میں ہی میرے کہنے پر چاکلیٹ کا ذائقہ چکھتے ہیں۔ میرے حالیہ ڈائٹنگ کے رجحان سے پہلے میری سالگرہ پر دیگر تحائف کے علاوہ میری والدہ چاکلیٹ کی پسندیدگی پر مجھے چاکلیٹس کا تحفہ لازمی دیتی تھیں۔ہمارے بچپن میں ظاہراً ٹیبلیٹس کی شکل میں نظر آنے والی رنگ برنگی چاکلیٹس "بنٹی "کے نام سے بازار میں فروخت ہوا کرتی تھیں جو انابیہ(بہن) کو بہت پسند تھیں۔ بچپن میں جب میں اسکرپٹس لکھا کرتی تھی تو میں نے اُس میں انابیہ کے کردار کا نام بنٹی رکھا جسے سی بی(بھائی طلحہ) نے ایک بار شرارت میں بگاڑ کر میرا لکھا ہوا ڈائلاگ بولتے ہوئے "بنٹنگ "بنا دیا، بنٹنگ انگریزی میں مختلف رنگوں کے امتزاج والی جھنڈیوں کو کہتے ہیں۔انابیہ کو چاہے کتنی ہی انتہائی ضروری چیزوں کی خریداری کے لیے بازار جانا ہو یا کم وقت کے لیے ہی کیوں نہ کوئی چیز خریدنی ہو لیکن وہ میرے لیے میری پسندیدہ چاکلیٹس ساتھ لانا نہیں بھُولتی۔
چاکلیٹ کے بارے میں مجھے یوں لگتا تھا کہ ڈائٹنگ کے دوران میں سب کچھ چھوڑ دوں گی مگر چاکلیٹ کو ترک کرنے کی قربانی میں نہیں دے پاؤں گی۔ میرا خیال ہے کہ سی بی کو بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ میرےڈائٹنگ شروع کرنے سے ایک روز قبل ہی رات کو اس نے مارکیٹ سے وافر مقدار میں چاکلیٹس لا کر ریفریجریٹر میں رکھ دیں اور شرارتی انداز میں ڈائٹنگ کے حوالے سے مجھے چھیڑتا رہا۔ آج کل ڈائٹنگ پہ ہونے کے باعث میں ایسی ذائقے دار ڈارک چاکلیٹ کی تلاش میں رہتی ہوں جو وزن بڑھانے کا سبب نہ بنے اور اس کام کے لیے میں نے سی بی کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی اس کا سُراغ ڈھونڈنے کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔لوگ خوبصورت چہرے اور معصوم آنکھوں والے وجیہہ مرد حضرات کو چاکلیٹ بوائے یا چاکلیٹ ہیرو کہتے ہیں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ اگر چاکلیٹ انسانی شکل میں ہوتی تو وہ سی بی جیسی ہوتی کیونکہ چاکلیٹ ہیرو اور چاکلیٹ بوائے والی تمام خصوصیات میرے بھائی میں موجود ہیں(بس وہ کچھ وزن کم کر لےجیسا پہلے تھا)۔ 
ایک حد تک مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذائقے کے علاوہ چاکلیٹ کا تعلق دماغ ، دل اور روح سے بھی ہے۔ چاکلیٹ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بھی پیش کی جاتی ہے اور اگر جذبات نیک اور پاکیزہ ہوں تو اس سے اچھی کوئی اور بات ہو ہی نہیں سکتی۔چاکلیٹ کہیں سچے دل سے معذرت چاہنے کا اظہار ہے تو کہیں لوگ اسے محبت کے اظہار کے طور پہ بھی دینا پسند کرتے ہیں۔  آج کا دن چاکلیٹ کے نام کیا جا رہا ہے تو خود بھی چاکلیٹس کھائیے ،دوسروں کو بھی کھلائیے اور ان مٹھاس بھرے لمحات کو یادگار بنائیے۔ لیکن کوشش کیجیے کہ آپ سب کی صحت پر اس کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ چاکلیٹ کوکو پھل سے بنائی جاتی ہےجو قدرت کا قیمتی عطیہ ہے۔پروردگار ِ عالم نے جو حلال اور پاکیزہ نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے مثبت استعمال سے اپنی صحت کو بہتر بنانے کے اقدامات عمل میں لاکر فائدے حاصل کرنے چاہیئں۔
از قلم، علینہ ظفر


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟