ہجومِ حُسن میں تم نواب لگتے ہو
میرا بھائی محمد طلحہ ظفر
عرف سی بی میری زندگی کی وہ واحد ہستی ہے جس کی کچھ شرارتوں پہ چڑنے کے باوجود بھی
میں لطف اندوز ہوتی ہوں۔ اس کی شرارتیں تو بہت سی ہیں لیکن چند ایک کا ذکر کر پاؤں
گی۔ سردیوں کی ایک شام ، رات کے کھانے کے بعدمیں
ٹرے میں برتن سمیٹ کر کچن میں جانے لگی تو سی بی پہلے تو مجھے چپ چاپ
برتن سمیٹتے دیکھنے لگا پھر آگے بڑھ کر اُس ٹرے میں جگہ نہ ہونے کے باوجود بھی
زبردستی اُس میں برتن رکھ رکھ کر ٹرے کا وزن بڑھانے کی شرارت کرنے لگا تاکہ جب میں
وہ برتنوں سے بھرا ٹرے اٹھا کر کچن میں لے جانا چاہوں تو وہ وزنی ٹرے مجھ سے
اٹھایا نہ جا سکےاور برتنوں سمیت غیر متوازن ہو کر گِر جائے۔ یہ سب کرتے وقت اُس
کے چہرے پہ بلا کی سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔میں نے خفا نظروں سے اُسے دیکھ کر
کہا،"یہ کیا کر رہے ہو؟" کہنے لگا،"آؤ اِس کمرے سے کچن تک کے
تمہارے سفر کو میں رومانچک بنا دوں۔" میں نہ چاہتے ہوئے بھی قہقہوں میں ہنسنے
پہ مجبور ہو گئی تو وہ خود بھی ہنسنے لگا۔ شرارت کرتے ہوئے سی بی اپنی شرارتوں کو
خود بھی انجوائے کر رہا ہوتا ہے۔وہ مجھے تنگ کرنے کو اکثر کہتا ہے کہ بڑی بہن بھی
تو ماں کے برابر ہی ہوتی ہے تو چلو تم میرا فلاں کام کر کے دوجیسے مما میرا خیال
رکھتی ہیں۔ میں اُس کی بات سے حظ اٹھاتے اسے وہ کام کر کے دے رہی ہوتی ہوں اور وہ
ابھی پورا بھی نہیں ہوا ہوتا تو اُس کی جانب سے ایک ساتھ ہی مزید کئی فرمائشوں کا
نزول ہونے لگتا ہے۔ میرے بگڑے تیور دیکھ کر وہ دل ہی دل میں لطف اندوز ہو رہا ہوتا
ہے پھر مجھ سے کہتا ہے، "امید ہے کہ تمہیں مما کی جگہ کی قدر اور احساس ہو
رہا ہو گا ۔دیکھا وہ کیسے میرا خیال رکھتی ہیں ،جبکہ تم تو میری چھوٹی چھوٹی باتوں
پہ منہ بنا رہی ہو۔" اور میں چیختی رہ جاتی ہوں، "چھوٹی باتیں؟"
جب ہم چھوٹے تھے تو اسے میرا نام بھی ٹھیک سے لینا نہیں آتا
تھا۔ سی بی اور میں بچپن میں بہت کم گو تھے۔میں تو اب بھی کئی بار کم ہی بولتی ہوں
مگر سی بی اب پہلے کی نسبت تھوڑا زیادہ بولنے لگا ہے۔بچپن میں سی بی کسی کے سامنے
بہت کم ہی بولتا تھا یہاں تک کہ میری
والدہ مجھے اس کے کمرے میں جا کر دھیان رکھنے کا کہتی تھیں کہ وہ بنا آواز کے ہی
کھیل رہا ہوتا تھا۔ بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ جب اسے میرا نام لینا نہیں آتا
تھا تو وہ توتلی زبان میں مجھے علینہ کہنے کی بجائے نیندا کہا کرتا تھا۔ مجھے یاد
نہیں کہ کب اس نے میرا نام صحیح تلفظ سے ادا کرنا سیکھا لیکن بہت جلد وہ میرا نام
درست پکارنے لگاتھا۔ بچپن گزرنے کے بعد میں نے کئی مرتبہ اس سے بڑے لاڈ سے فرمائش
کی ہے کہ ایک بار ہی سہی لیکن کبھی مجھے
نیندا کہہ کر بلائے لیکن وہ مجھے چھیڑنے کی خاطر چڑانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجا
کر سختی سے ہونٹ بھینچ کر نفی میں سر ہلا دیتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنی
زندگی میں سی بی کی زبان سے اپنے لیے یہ نام ضرور سن لوں۔ میں خود کو نیندا کہنے
کی اجازت کبھی کسی اور کو نہیں دوں گی کیونکہ
اس نام سے بلانے کا حق صرف میرے بھائی سی بی کو ہی ہے، بچپن کے بعد اس نے کبھی نہیں کہا تو کسی
دوسرے کے کہنے کا تو جواز ہی نہیں بنتا۔اکثریت اس بات سے بھی لاعلم ہے کہ وہ جب
بھی کسی کھیل میں کوئی کارنامہ سر انجام
دیتا تو سب سے پہلے مجھے اس کے بارے میں بتاتا اور میرا ہاتھ پکڑ کرمجھے وہاں تک سرگوشیوں میں یہ کہتے ہوئے لے جاتا کہ
"نیندا ادھر آؤ میں تمہیں ایک چیز دکھاؤں ،یہ دیکھو میں نے کیا کیا۔"
پھر مجھے اس کے بارے میں تفصیلاً آگاہ کرتا کہ یہ سب اس نے کیسے کیااور ایسا کرتے
ہوئے وہ بہت معصوم اور پیارا لگتا۔اسے بلاکس سے اونچی اونچی بلڈنگنز بنانا اور
جہاز بنا کر کھیلنا بہت پسند تھا۔ وہ اب بھی اکثر شرارت کرنے سے پہلے کسی کے علم
میں لائے بغیر اس کے بارے میں مجھے مطلع کرنا نہیں بھولتا کہ فلاں بات میں فلاں
شخص سے کہنے جا رہا ہوں، دیکھنا کتنا مزہ آئے گااور اگر تمہیں مجھے باز رکھنا ہے
تو منع کر کے مجھے ایسا کرنے سے روک لو۔ اور جب میں دہل جانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے نقصان والے نتائج بتا کر اسے خوف دلاتی ہوں تو وہ بڑا محظوظ ہوتا
ہے۔
مجھے
سی بی کے ساتھ کرکٹ اور مزاحیہ پروگرامز دیکھنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ اسے پتا ہے کہ
مجھے موویز دیکھنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن وہ جان بوجھ کر انگریزی موویز
لگا کر ٹی وی کا ریموٹ اپنے قابو میں لیے میرے تاثرات انجوائے کر رہا ہوتا ہے۔
کوئی ایکشن سین دیکھنے کے بعد اشتہارات کے دوران وہ ہوا میں ہاتھ پاؤں چلاتے ہوئے مجھے وہی سب دہرا کر بھی دکھاتا اور سناتاہے۔ میں
چلنے پھرنے والے کاموں کے دوران اکثر وائرلیس ایئر فونز پر میوزک سنتی ہوں اور
اکثر موبائل چارجنگ پہ چھوڑ کر موسیقی سنتے ہوئے دوسرے کمرے میں جا کر کام نمٹانے
لگتی ہوں۔ اُس دوران اردو موسیقی یکایک
نابلد زبان والی غیر ملکی موسیقی میں بدل نہ جائے سی بی کی موجودگی میں کبھی
میرے ساتھ ایسانہیں ہوا ۔ سی بی تیز خوشبوؤں والے پرفیومز کا بے دریغ استعمال کرنا
پسند کرتا ہے۔جب میں سو رہی ہوتی ہوں تو کبھی کبھی وہ چپکے سے میرے سرہانے آکر
بظاہر تو خود پر لیکن اصل میں مجھ پر اپنا پرفیوم اسپرے کرنے لگتا ہے تاکہ میری
آنکھ کھل جائے۔ تب میں یہ بڑبڑاتے ہوئے جاگ جاتی ہوں کہ سی بی تم ضرور مجھے کسی دن پرفیوم کی الرجی کرا کے چھوڑو گے۔ وہ آگے سے
شرارتی مسکراہٹ چہرے پہ سجا کر مجھے "گڈ مارننگ "کہہ کر بھاگ جاتا
ہے۔سوتے ہوئے روشنی اور شور سے خود کو بچانے کے لیے جو لحاف سر تک تانے اور جس
تکیے میں منہ دیے میں سو رہی ہوتی ہوں اسے
دیکھ کر بھی سی بی کے دماغ میں دنیا جہان کی شرارتیں جنم لینے لگتی ہیں۔ یہ عالم
تب بھی ہوتا ہے جب میں کوئی تحریر لکھ رہی ہوں۔ اسے اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ
جب میں لکھ رہی ہوتی ہوں تو اس وقت کسی کو
بھی میرے قریب پھٹکنے کی کوئی مجال ہے نہ اجازت، لیکن وہ میرے ان تمام شاہی
فرمودات کو ہوا میں اڑاتا ہوا میرے ہاتھ
میں تھامے کاغذ قلم تو کبھی میرے لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ جھکا میرے ساتھ بیٹھ جاتا
ہے تاکہ میرے لکھنے میں خلل پیدا ہو۔ اپنی
مرضی سے ہی سہی لیکن وہ جلد ہی میری کیفیت سمجھ کر ہنستا ہوا مجھے لکھنے کے کام
میں مصروف دیکھ کر وہاں سے چلا جاتا ہے
اور کبھی تو مجھے وہاں سے اپنی چیزیں سنبھال کر جگہ تبدیل کرنی پڑتی ہے تاکہ میں
یکسوئی سے لکھ سکوں۔
اللہ نے سی بی کو ایک بہت
اچھے آرٹسٹ کی صلاحیت بھی دے رکھی ہے۔ میرے پاس مما کی ایک پرانی ڈائری ہے جس میں
انہوں نے مختلف اشعار تحریر کیے ہوئے ہیں۔ ایک دن کسی کام سے میں نے وہ ڈائری
کھولی تو ان کی ہینڈ رائٹنگ میں نیلی روشنائی سے لکھی ایک سنجیدہ نظم کے چند اشعار
کے آگے کچی پینسل سے ان کا مزاحیہ اشعار
میں جواب لکھا ہوا تھا۔ میں نے جونہی اسے پڑھا تو مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ میں نے چند صفحے مزید پلٹے تو اس پہ خوبصورت
اسکیچز، ڈرائنگ اور آرٹ ورک بھی ملے۔ اس کے علاوہ آگے والے صفحوں پر املا کی غلطی
سے پُر مگر انتہائی دلچسپ اور نظر انداز نہ کیے جانے والے کچھ سنجیدہ اور کچھ
مزاحیہ اشعار اس پہ رقم ہوئے پائے جنہیں
پڑھ کر میں ہنسی تو ہنستی ہی چلی گئی۔وہ تمام آرٹ ورک اور اشعار لکھنے کا کام سی
بی نے اپنے بچپن میں کبھی کیا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ بچپن میں مجھے دیکھ کر اس
نےبھی ڈائری لکھنا شروع کی تھی جبکہ وہ اس
وقت ایسی عمر میں تھا کہ ابھی ٹھیک سے الفاظ بھی لکھنا نہیں آتے تھے۔ ہم اپنی اپنی
ڈائری میں روز مرہ روٹین کی باتیں تحریر کیا کرتے تھے۔ سی بی جب بھی ڈائری لکھتا
تو لکھا ہوا وہ صفحہ کھول کر میرے سامنے رکھ دیتا کہ اسے پڑھو۔ مجھے پڑھنے میں بے
حد مزہ آتا اور حیرت بھی ہوتی کہ اتنی سی عمر میں وہ روٹین
کے معمولی واقعات سے غیر معمولی مزاح کیسے تلاش کر لیتا ہے، جہاں بڑوں کا بھی
دھیان نہیں جاتا۔ وہ اکثر کوئی اشعار لکھتا اور مجھے پڑھنے کو دیتا کہ اسے پڑھ کر گھر میں باقی سب کو بھی سنا
دو۔میرے لاکھ کہنے پر بھی وہ کبھی خود سب کو نہ سناتا بلکہ مجھے ہی یہ کام کرنا
پڑتا۔ سب اسے بڑا سراہتے اور مما اور میں اس کی بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ لکھنے کے بعد وہ تحریر کو انتہائی لاپروائی سے
ایک طرف ڈال دیتا تو مجھے اس کے اس لا
ابالی پن پہ بہت خفگی ہوتی۔ میں اس کی تحریریں خود سنبھال کر رکھ لیتی اور اس کی
وہ سب تحریریں جو ایک مدت سے میرے پاس با
حفاظت رکھی ہوئی تھیں اب تک محفوظ ہی
رہتیں اگر ایک دن وہ اپنی وارڈ روب
کی صفائی کرتے ہوئے مجھ سے مانگ نہ لیتا۔ مجھے لگا وہ صفائی کے بعد اپنی الماری
میں اس کی جگہ بنا کر اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے۔ میں اس کے کہنے پر اس کی چیزیں
اس کے حوالے کرکے
اپنے کمرے میں چلی آئی ، تھوڑی دیر بعد وہاں کسی کام سے گئی تو دیکھا ایک
لفافے میں پرانے پھٹے ہوئے کاغذؤں سمیت اس کی وہ تحریریں بھی پرزہ پرزہ ہو کر اس
لفافے میں جا چکی تھیں جنہیں وہ کچرادان کی نذر کرنے جا رہا تھا۔وہ سب دیکھ کر
میرا تو خون ہی کھول اٹھا۔ میں اس کی اس حرکت پر غصہ میں خوب ہی چیخی چلائی
تھی۔مجھے کبھی اس کی کسی بات پہ اتنے زیادہ عرصے تک غصہ نہیں آیا لیکن بطور لکھاری
میری نظر میں اس کی یہ حرکت میرے لیے آج بھی نا قابلِ معافی ہے۔ مجھے اب بھی اس
بات کا بہت پچھتاوا ہوتا ہے کہ کاش میں نے اسے اس کی وہ تحریریں نہ دی ہوتیں۔ میں
اسے اکثر دوبارہ لکھنے کے لیے اکساتی رہتی ہوں لیکن اس معاملے میں اس کی وہی غیر
سنجیدگی برقرار رہتی ہے۔
میری
سالگرہ پر سی بی نے کبھی مجھے سیدھا جملہ بول کر یعنی " ہیپی برتھ ڈے ٹو
یو" کہہ کر وش نہیں کیا۔ بلکہ وہ
ہمیشہ جملے کو الٹ پلٹ کر "ٹو یو برتھ ڈے ہیپی "گا کےہی مجھے وش کرتا ہے۔ کافی سالوں سے اس نے یہی معمول بنا رکھا ہے۔ اس
انداز سے میرے علاوہ اس نے کبھی کسی اور کو سالگرہ کی مبارکباد نہیں دی۔ بس ہوتے
ہیں نا آپ کی زندگی میں کچھ ایسے لوگ کہ محض ان
سے ہی آپ کی چند باتیں جڑی ہوتی
ہیں اور ان مخصوص لوگوں کے سوا آپ کسی اور سے چاہ کر بھی وہ باتیں نہیں کر یا کہہ
سکتے۔ تو ایسے ہی میرا اپنے بھائی کے ساتھ معاملہ ہے۔ مجھے اس کے ساتھ مل کر
شرارتیں کرنا بھی اچھا لگتا ہے لیکن زیادہ
تر یہ ساری مشترکہ شرارتیں بس ہمارے آپس کی ہی ہوتی ہیں۔ یہاں میرے لیے خود بھی یہ
بات قابلِ حیرت ہے کہ سی بی کے ساتھ ہوتے ہوئے میرے اندر کی ساری سنجیدگی اور میری
خاموش طبیعت پر کوئی شرارتی سی لڑکی جاگ کر
نہ جانے کیسے غالب آ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کو
طلحہ کہنے کی بجائے سی بی کیوں کہتی ہوں
اور سی بی کا کیا مطلب ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ "سی بی "انگریزی الفاظ کا مخفف ہے اس لیے کئی لوگ سی بی سے مراد
"چھوٹا بھائی "لیتے ہیں جبکہ در حقیقت سی بی کسی اور ہی الفاظ کا مخفف
ہے۔ سی بی اور میں لوگوں کی ایسی قیاس آرائیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ ہنستے
ہوئے مجھ سے کہتا ہے کہ ویسے کوئی
یہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا کہ سی بی کا مطلب کیا ہے اور تم مجھے سی بی کیوں کہتی
ہو اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔مجھے اسے سی بی کہنا اتنا اچھا
لگتا ہے کہ جب بچپن میں میں اسکرپٹ لکھا کرتی تھی جسے ہم سب کزنز مل کر ایکٹ کرتے
تھے تو اس میں میں نے اپنے بھائی کا کیریکٹر اسی نام سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔
اپنے بھائی کو سی بی کے نام سے بلانا میرا اُس سے محبت کے اظہار کا ایک انداز ہے۔ میں محبت کے ناموں سے صرف
انھیں ہی بلاتی ہوں جو میرے دل کے بہت زیادہ
یعنی سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔سی بی !تم بلا شبہ میری زندگی کی رونق ہو۔
چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے والے کا دل بڑا خوبصورت ہوتا ہےاور اللہ نے تمہیں
وہ خوبصورت دل عطا فرما یا ہے۔میں جانتی
ہوں کہ تم یہ ساری شرارتیں ہمارے چہروں پہ مسکراہٹیں لانے کے لیے کرتے ہو۔ تمہیں
بھی پتا ہوتا ہےکہ اگر کوئی تمہاری کسی شرارت پہ پہلے چڑجائے تو چند ہی لمحوں میں
اسی شرارت پر وہ خود بھی ضرور اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئےہنسے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔میں ان تمام لوگوں کو خوش نصیب
سمجھتی ہوں جنہیں تمہارا ساتھ میسر ہے اور بےشک اُن کی بد نصیبی ہے اور اُن کے لیے
یہ بات کسی نقصان سے کم نہیں ہے جن کی زندگی میں تم ہو کر بھی نہیں ہو۔ میری دعا
ہے کہ اللہ تمہارے در پہ دائمی خوشیوں کو نازل کر دے اور تم ایسے ہی سب کو ہنساتے
رہو۔ آج تمہاری سالگرہ ہے تو اس دن کی مناسبت سے ایک ایسی شاعری کا انتخاب تمہارے نام کرتی ہوں جسے جب پہلی بار
میں نے پڑھا تو یوں لگا کہ شاعر نے تمہارے
لیے میرے دل کی ترجمانی کی ہے ۔ میں نے
اسے پڑھ کے محفوظ کیا تھا مگر وہ مل نہیں رہی ۔ چونکہ اسے ایک بار ہی
پڑھا تھا اس لیے یہاں تحریر کرتے وقت اگر مجھ سے
اشعار میں رد و بدل ہو جائے تو با ذوق قارئین اور شاعر سے معذرت چاہتی ہوں۔
اگر کسی کو یہ نظم ٹھیک سے آتی ہے تو وہ مجھے لکھ کے بھیج دے۔ شرط یہ ہے کہ وہ
صحیح ہو اور اس کے تمام اشعار اپنی اصلی حالت میں ہوں جیسا کہ شاعر نے لکھی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں