بہن انابیہ کے نام
آج 30نومبر ہے وہ دن جب اللہ نے مجھے بھائی کے علاوہ ایک اور خوبصورت رشتے یعنی بہن سے نوازا۔ گھر کے علاوہ بچپن میں انابیہ کی سالگرہ کا اہتمام اسکول میں بھی ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ایک مرتبہ سالگرہ سے کچھ دن پہلے وہ میرے پاس آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ ہمارے گھر کا پراپرایڈریس کیا ہے؟میں نے کہا کہ کیا ضرورت آن پڑی ہے جو تم پوچھ رہی ہو۔ سی بی (بھائی طلحہ)پاس ہی بیٹھا تھا سُن کر کہنے لگا اتنی بڑی ہو گئی ہے اور اسے دیکھو اپنے گھر کا پورا ایڈریس تک نہیں جانتی۔ انابیہ نے اسے گھورا اور کہا تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے تمھیں خود تو پتا ہے۔ وہ کہنے لگا مجھے تو پتا ہے۔انابیہ نے کہا کہ بتاؤ پھر۔ سی بی نے جواب میں چڑانے والی مسکراہٹ چہرے پہ سجا لی۔انابیہ مجھ سے مخاطب ہوئی اور کہا اسے چھوڑو تم مجھے ایڈریس بتاؤ گھر کا۔میں نے زبانی بتایا تو اسے سمجھ نہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے پاس آئی میں ہوم ورک کر رہی تھی میرے سامنے ایک کاغذ کا چھوٹا ساٹکڑا اور پینسل رکھتے ہوئے کہا کہ جو ایڈریس تم بتا رہی تھی اس پہ لکھ دو۔ چونکتے ہوئےمیں نےاسے دیکھا پھرجان چھڑانے والے انداز میں اسے لکھ کر دے دیا اور دوبارہ ہوم ورک کرنے لگی۔
اس وقت اس کی
سالگرہ رمضان کے مہینے میں تھی اور ہر بار کی طرح بڑے تایا جی (اللہ جنت نصیب
فرمائے)نے اس کی سالگرہ کا کیک لاتے ہوئےہمارے
ہاں آ کر اسے کاٹنے کا ارادہ کیا ۔ہمارے والدین نے بھی اصرار پر ان سب کو اس دن
افطاری پہ مدعو کر لیا۔ سب لوگ ہمارے ہاں جمع ہو گئے اور افطار کا انتظار کرنے لگے
جس کے بعد کیک کاٹنا تھا۔مغرب کی اذان سے کچھ ہی لمحوں پہلے باہر ڈور بیل بجی اور
ہم متوجہ ہو گئے کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے۔مما دیکھنے باہر گئیں تھوڑی دیر میں
واپس آئیں تو انابیہ کی سہیلی اور اس کی چھوٹی بہن بھی ساتھ تھی جن کی والدہ انھیں
ہمارے ہاں ڈراپ کر کے جا چکی تھیں۔انابیہ سہیلی سے بڑے تباک سے مل رہی تھی۔ ہم
حیران رہ گئے کہ یہ بچی اور اس کی بہن یہاں
اس وقت کیسے؟ بہر حال ہم نے اسے بھی ساتھ شامل کر لیا۔مگر ہماری حیرانی کا عالم
یہیں تک برقرار نہیں رہا بلکہ یکے بعد دیگرے اس کی مزید سہیلیوں کی آمد سے بھی ہم حیرتوں
کے عالم میں رہے۔ہمارے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ انابیہ کی دوستوں کو ہمارے گھر
کا پتا کیسے چلا جو سب یہاں پہنچ گئیں۔ بعد میں یہ عقدہ انابیہ نے خود ہی ہم پر
کھولا کہ چند دن پہلے جو گھر کا پتا وہ مجھ سے کاغذ پہ لکھوا رہی تھی وہ اپنی
سہیلیوں کو سالگرہ کی دعوت دینے کے لیے تھا۔اس نے وہ کاغذ پہ لکھا ایڈریس ان میں
سے کسی ایک کو دیا جسے اس نے فوٹوکاپی کی دکان سے کاپی کرا کے انابیہ کے ساتھ مل کر باقی سہیلیوں میں بھی بانٹ دیا۔
ہماری بہن انابیہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنی بے
لوث محبت اور خالص جذبوں کے باعث خاندان اور خاندان کے باہر بھی بچے، بڑے، بوڑھے
ہر عمر کے لوگوں میں ہردلعزیز اور بے حد پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں۔خاندان کا کوئی فرد
ہو یا خاندان سے باہر جب کسی کی سالگرہ، ایگزام کا رزلٹ، شادی بیاہ یا خوشی کا
کوئی بھی موقع ہو وہ اس کی خوشی کے لمحات کو اپنی خوشی کی طرح منانے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑتی۔دوسرے لوگ انابیہ کی محبت کے اس انداز کے
گواہ تو ہیں ہی لیکن بہن ہونے کے ناطے چونکہ لمحےلمحے کا انابیہ سے ساتھ ہے اس لیے
میں ہر اس پہلو کو بھی جانتی ہوں جس سے دوسرے واقف نہیں ہیں۔ اساتذہ کا حکم ہے کہ
ڈرامہ بازی کی بجائے عملاً کسی کے لیے کچھ اچھا کرو اورخدمت کر کے اگر اس کا احسان
جتا دو گے تو خدمت ضائع ہو جاتی ہے اور انابیہ بھی ان خیالات کی حامل ہے اس لیے ان
واقعات یا باتوں کا تذکرہ کرنا یہاں مناسب نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کو اپنے بارے میں
یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہم نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا یا ہم ایسا نہیں کرتے۔استادِ محترم فرماتے ہیں
کہ جب ہم اس طرح کی سطحی سوچ اپناتے ہیں تو دوسرے کی بجائے اپنی زندگی اور آخرت کو
اپنے ہاتھوں خود تباہ کرتے ہیں۔دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے کی
بجائےاپنےمثبت قول و فعل سے اپنےکردار کو
بلند رکھیں تاکہ جب آپ کسی پر تنقید کریں تو لوگ آپ کے یوں تنقید کرنے پر انگلی نہ
اٹھا سکیں کیونکہ دوسروں کے گریبان پر نظریں جمانے والے کا اپنا گریبان پھٹا ہوتا
ہے۔
اپنے بھائی اور بہن کے متعلق میں اکثر کہتی ہوں کہ جو لوگ انھیں مدتوں سے جانتے ہیں وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگ دیکھے ہیں مگر ایمانداری، وفاداری ،سچائی، صاف دل ، بے غرض محبتوں اور ایسے مثبت رویے والے کم ہی دیکھے ہیں۔ اگر قدرت ان ایسے پیارے لوگوں کو آپ کی زندگی میں شامل کر دیتی ہے تو یہ بات کسی انعام سے کم نہیں ہے۔ خوبصورت دل والوں کو ٹھکرانا کسی کفرانِ نعمت سے کم نہیں ہے۔ جب ہم اللہ کے دیے گئے انعامات کا شکوہ کرتے اور ان میں عیب تلاش کرتے ہیں تو پھر ان نعمتوں سے آپ کو محروم کر دیا جاتا ہے۔اللہ فرماتا ہے کہ میرا شکر ادا کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا اور ناشکری کرو گے تو تم سے لے لوں گااور ہمارا ایمان ہے کہ بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
انابیہ سے بہنوں کے آپس کے راز و نیاز والے رشتے کی نوعیت اپنی جگہ مگر جب سے اس کے
صاحبزادے ننھے اور پیارے سے محمد ولی صاحب
کی تقریباً دو سال پہلے اس دنیا میں تشریف
آوری ہوئی ہے تو اب محمد ولی کا ذکر ہی اکثر ہماری گفتگو میں پہلی ترجیح ہوتی ہے۔محمد
ولی بھی اپنی مما کو اپنی جانب متوجہ رکھتا ہےاور اس کی مما کی توجہ بھی ہر وقت محمد ولی کی طرف لگی رہتی ہے۔انابیہ کی
سالگرہ کے اس موقع پر میری دعا ہے کہ اللہ میرے محمد ولی کی جنت کو سلامت رکھے اور
اسے بہت بہت پیارےمحمد ولی کی ہر خوشی دِکھائے، آمین۔
از قلم، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں