بھانجے محمد ولی کے نام


پیارے بھانجے محمد ولی !آج تم پورے دو سال کے ہو گئے ہو۔ زندگی کے دو سال مکمل ہونے پر تمھیں بہت بہت مبارک ہو۔جیسے تم نے اپنے وجود سے ہماری زندگی کو رنگین بنا رکھا ہے میری دعا ہے اللہ تمھاری زندگی کو بھی خوشیوں کے بھرپور رنگوں سے بھر ا رکھے اور تم ہمیشہ ہنستے بستے رہو۔

مجھے محمد ولی کی آنکھوں میں ناچتی شرارت بہت پیاری ہے۔ پتا نہیں اس کی مسکراتی آنکھوں میں اس ناچتی شرارت کی کیا کشش ہے کہ میں ہمیشہ اس کی ہنسی پہ بے ساختہ مسکرا اٹھتی ہوں۔ جب میں اسکرین کے سامنے بیٹھی لکھنے کا کام کر رہی ہوتی ہوں تو وہ میرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے ۔پہلے میرے لیپ ٹاپ کو دیکھ کر اس کے چہرے پہ شرارتی مسکراہٹ ابھرتی ہے اور پھر میری جانب دیکھ کر۔ محمد ولی اپنی مما کے منع کرنے کے باوجود میری گود میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنےننھے اور پیارے سے ایک ہاتھ سے  کی بورڈ کے بٹن دباتا ہے جبکہ ساتھ ہی قہقہے لگاتا ہوا دوسرے ہاتھ سے میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے تاکہ میں اسے منع نہ کر پاؤں۔ ابھی وہ سو رہا ہے اور میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں تو اس وقت اس کی اس پیاری شرارت کو سوچ کر ایک مسکراہٹ میرے چہرے پہ ہے۔

جب وہ پیدا ہوا تھا تو سب مجھے خالہ بننے کی مبارکباد دیتے ہوئے  پوچھتے تھے کہ آپ کی کیا خواہش ہے کہ محمد ولی بڑا ہو کرآپ کو کیا کہہ کر بلائے تو میں نے کہا تھا کہ جو میرے محمد ولی کا دل چاہے اور میں چاہتی تھی کہ وہ مجھے کسی ایسے نام سے بلائے جو کسی نے نہ بلایا ہو یا کم کم کسی کو اس نام سے مخاطب کیا جائے۔ اس کی مما نے اسے میرے لیے لفظ خالہ سکھا رکھا ہے  اور میں کہا کرتی تھی کہ اسے جو مرضی سکھا لو لیکن یہ اپنی مرضی سے جو اس کا دل چاہے دیکھنا یہ  وہی کہہ کر مجھے بلایا کیا کرے گا۔میری یہ پیشن گوئی صحیح ثابت ہوگئی۔  مجھے دلی خوشی ہوئی جب اس نے پہلی بار مجھے خالہ کی بجائے لالہ کہہ کر بلایا۔ وہ مجھے لالہ ہی کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور جب اسے اپنی لالہ پر بہت زیادہ لاڈ آ رہا ہو تو لالَو بھی کہتا ہے۔ دو سالہ محمد ولی اپنی زبان میں بولتا رہتا ہے جس میں سے کچھ الفاظ  کبھی سمجھ آ جاتے ہیں  اور کبھی نہیں جبکہ دیگر جملوں اور باتوں کا کبھی مفہوم سمجھ میں آ بھی جاتا ہے۔ وہ اکثر اپنی بات کا مطلب سمجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔اسے کوئی چیز چاہیئے ہو تو میری یا اپنی مما کی انگلی پکڑ کر اس جگہ تک بھی لے آتا ہے کہ یہاں سے اسے فلاں مطلوبہ شے چاہیئے۔

 

روزِ اول سے ہی اپنی لالہ سے محمد ولی کے اور اپنے محمد ولی سے لالہ کے باقیوں کی نسبت بہت پیارے اور الگ  ہی انداز کے لاڈ ہیں۔ محمد ولی کو اب بھی لالہ کے چہرے پہ اپنے گال اور سر ٹکانے کی عادت ہے۔کپڑے تبدیل کرنے ہوں یا ڈائیپر محمد ولی کی لالہ کے ساتھ شرارتیں آج بھی وہی ہیں جو پیدائش کے بعد والے بہت چھوٹے سے محمد ولی کی تھیں۔لالہ سو رہی ہوتی ہیں تو محمد ولی بستر پہ چڑھ کے لالہ کے ساتھ لاڈیاں کرتےہوئے آوازیں دے کر جگا  کر لیتا ہے  اس لیے لالہ نے محمد ولی کو اپنے الارم کا نام دے رکھا ہے۔ جب لالہ جاگ جاتی ہیں تو وہ انھیں جاگتا  دیکھ کر مسکراتا ہے  اس کی اس مسکراہٹ میں خواہش پنہاں ہوتی ہے کہ اب لالہ بھی اسے دیکھ کر مسکرائیں۔

محمد ولی اپنی مما کو نعت پڑھتا سنتا تھا اس کی وجہ سے اس نے اس نعت کے ابتدائی الفاظ بھی یاد کر رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ محمد ولی کو اپنی ویڈیوز دیکھنا بھی بہت پسند ہے۔خالہ اور مما بچوں کو موبائل ہاتھ میں تھمانے کے سخت خلاف ہیں۔اس لیے بہت سی ویڈیوز اور نظمیں اسے ماموں کی مدد سے  ایل ای ڈی اسکرین کے ذریعے  یوں دکھا دی جاتی ہیں کہ اس سے محمد ولی کی بینائی متاثر نہ ہو۔ اس بات کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ محمد ولی کو کچھ نظمیں یاد بھی ہو گئی ہیں۔بے بی شارک اس کی پسندیدہ نظم ہے جس کی فرمائش وہ اپنی خالہ سے کر کے ان کی اپنی آواز میں سنتا ہے اور ساتھ خود بھی  جھومتے، گول گول گھومتے  اور ناچتے ہوئےسناتا ہے۔اور تب تک اپنی خالہ کی جان نہیں چھوڑتا جب تک وہ طویل نظم شروع سے آخر تک سنا نہیں دیتیں۔بات یہیں تک ختم تھوڑی ہوتی ہے جیسے ہی خالہ پوری نظم سنا کر ختم کرتی ہیں سانس لینے سے قبل ہی محمد ولی کی جانب سے دوبارہ فرمائشی پروگرام شروع ہو جاتا ہے۔

محمد ولی کا گیند کو گھما کر پھینکنے کا انداز  بہت پیارا ہے۔اس کے گیند سے کھیلنے کے شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے ہر گول شکل والی چیز کو گیند بنا کر کھیلنا بہت پسند ہے اب چاہے وہ آلو پیاز  یا کینو ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کی زبان میں ہر گول چیز یہاں تک کہ گیند بھی بال کی بجائے "کیچ "ہے۔ مجھے لفظ کیچ کبھی اتنا توجہ طلب اور پیارا نہیں لگا جب تک وہ محمد ولی کے لبوں سے ادا نہیں ہوا تھا۔ ماموں اس کے لفظ کیچ  اور اسے گھما کر پھینکنے کے اندازکو بہت انجوائے کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ استادِ محترم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے محمد ولی کو دیکھ کےفرمایا کہ اسے دیکھ کر بغیر بتائے یا بغیر کہے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ انابیہ کا بیٹا ہے۔ گھر کے سب لوگ ایک کمرے میں ہیں اور اگر کوئی ایک فرد بھی وہاں موجود نہ ہو یا کسی دوسرے کمرے میں ہو تو محمد ولی کو اس کی فکر رہتی ہے وہ  اسے تلاش کرتا ہوا اس ایک فرد کے پاس پہنچ کر اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ ننھا سا محمد ولی جس انداز میں اپنے نانا ابو، نانو، خالہ، ماموں  اور مما  سے محبت کا اظہار کرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انابیہ (محمد ولی کی مما)نے چھوٹے سے محمد ولی کی شکل کا روپ دھار لیا ہو۔ مجھے اس کی یہ  محبت اور خیال رکھنے والی عادت بالکل اس کی مما جیسی ہی لگتی ہے۔ جب وہ چھوٹی سی تھی تب سے اسے اپنے ننھیالی، ددھیالی اور دیگر ملنے جلنے والوں سے بے پناہ اور بے لوث محبت تھی جو آج بھی موجود ہے۔

محمد ولی کو ایسے جوتے پہننا زیادہ پسند ہیں جن میں چلتے ہوئےسیٹی کی آواز بھی سنائی دے۔ چلتے ہوئے جب وہ ایڑھی زور سے زمین پر مارتا ہے تو  سیٹی بجتی ہے جس پر  وہ بہت خوش ہوتا ہے۔خاص طور پہ میرے ایکسرسائز ورک آؤٹ کے دوران وہ بہت خوش ہوتا ہے دوڑتا ہوا آ کر میری ٹانگوں سے چمٹ جاتا ہے میں اسے گود میں اٹھا لیتی ہوں تو وہ میرے ساتھ لپٹ جاتا ہے۔ پھر میں اسے بھی ایکسرسائز میں شامل کرلیتی ہوں تو اسے خوب مزہ آتا ہے اور مجھے بھی بہت اچھا لگتا ہے۔جب کوئی اس سے پوچھے کہ لالہ ایکسرسائز کیسے کرتی ہیں یا محمد ولی ایکسرسائز کیسے کرتا ہے تو  وہ اپنے دونوں پاؤں باری باری اٹھاتا زمین پر  زور سےمارتے ہوئےمارچ کرتا ہوا دائرے میں گھومنے لگتا ہے ۔ اس وقت مجھے محمد ولی کے قدموں کی وہی مخصوص چاپ سنائی دے رہی ہے یقیناً وہ جاگ گیا ہے اور اپنی لالہ کو ڈھونڈتا ہوا یہیں تک آ رہا ہے۔ اس کی باتیں لکھنے بیٹھوں تو بہت زیادہ لکھی جائیں مگر آئندہ لکھنے کے لیے فی الحال یہیں اپنی اس تحریر کا اختتام کرتی ہوں۔ اللہ میرے محمد ولی کو  بہت سی کامیابیوں سے نوازے، حسد اور ہر قسم کے شر سے اسے ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے ، آمین۔

از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟