شبِ دسمبر اور کچھ قلمی باتیں
پتا نہیں کیوں مگر مجھے ہمیشہ سےہی اپنے کمرے کی کھڑکی سے
باہر ٹریفک کا نظارہ کرنے کی خواہش رہی ہے۔ اپنی اپنی سمت میں دوڑتی ہوئی گاڑیاں
جاگتی اور رواں زندگی کا ایک نشان۔اور
کوئی تحریر لکھتے وقت چاندنی راتوں میں دروازے کی اوٹ سے کبھی چاند میرے کمرے میں
جھانکتا ہے تو اس کی ٹھنڈی میٹھی روشنی میرے من کو بہت بھاتی ہے۔ اکثر تحریریں میں
نے اسی پُر فسوں ماحول میں ہی لکھی اور
پڑھی بھی ہیں۔ اس وقت دھندلے دسمبرکی یہ
آخری بھیگی رات قطرہ قطرہ بیت رہی ہے۔بالکل یونہی بہت سے لوگ میری
زندگی کے اس ایک سال میں جاتے اوراس میں شامل
ہوتےرہے۔یہ دل ہمیشہ ہی کشادہ رہا ہے جانے والوں کے لیے بھی اور آنے والوں کے لیے
بھی۔
سال2020میں خوف و ہراس پربا کرنے والےکورونا کے وبائی مرض
نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں رکھا۔ اللہ
کا شکر ہے کہ کورونا کی جس صورتحال کا سامنا پوری دنیا کے دیگر ممالک کو رہا اللہ نے پاکستان کو اس سے محفوظ رکھا ہے ۔دعا ہے
کہ اللہ پاکستان سمیت پوری دنیا سے کورونا کی خطرناک بیماری کو دور کر دے اور سب
کو اپنی حفاظت میں رکھے۔اس موذی بیماری سے جتنے افراد اب تک متاثر ہوئے ہیں اللہ
تعالیٰ انہیں صحتیابی عطا فرمائے اور جو اس مہلک مرض کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت
ہو چکے ہیں اللہ ان کی آگے کی منازل آسان فرمائے، آمین۔ ہمیں احتیاط ہی اس سے بچا
سکتی ہے لہذا کوروناسے متعلق احتیاطی تدابیر اپنانا سب پر لازم ہے۔ خدارا! ایس او
پیز کو اپنائیے خود بھی محفوظ رہیئے اور دوسرا کا بھی خیال رکھیئے۔
قلمی شعبے سے متعلق بہت سے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور
2020 میں بھی ہوتے رہے ہیں جنھیں شیئر کرنے کا موقع یا وقت نہیں مل پایا یا جب
ایسا کرنے کا کوئی ارادہ باندھا بھی تو یہ سوچ کر پھر خود ہی توڑ ڈالا کہیں لوگ یہ
نا سمجھیں کہ میں نے شیخیاں بگھارنے کو اپنی تعریفیں خود ہی لکھ ڈالی ہیں۔بہت سے
لوگوں کے ذہنوں میں پڑھ کر یہ سوال بھی ابھرے گا کہ پھر میں اب ایسا کیوں کر رہی ہوں ۔ بس بات اتنی سی ہے جواستادِ
محترم نے سکھائی ہے کہ محبت کا جواب محبت سے ضرور دیا کرو۔ لوگوں کی محبتیں اتنی
زیادہ ہیں کہ اکثر فرداً فرداً سب کو جواب دینا میرے لیے کبھی کبھی مشکل بھی ہو
جاتا ہے مگر کوشش کرتی ہوں کہ سب کو جواب دے پاؤں لیکن جب بھی قارئین کے پیغامات
موصول ہوتے ہیں تو ایک ایک کو ضرور پڑھتی ہوں۔اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ اس تحریر
کے کی بدولت حوصلہ افزائی اور میرے لیے دعائیں
کرنے والوں کی محبت کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرنے کا کوئی اور بہتر ذریعہ
نہیں ہو سکتا۔
یوں تو میری قلمی
زندگی سے جڑے واقعات اور باتیں بہت
سی ہیں اور ان سب کوتو اس ایک تحریر میں لکھ
دینا میرے لیے ممکن نہیں ہے مگر کچھ ایسے خاص ہیں جو ہمیشہ میرے ذہن میں اس لیے بھی رہتےہیں تاکہ
میں اپنی تحریروں میں ہر بار پہلے سے زیادہ دھیان، توجہ، سنجیدگی اور نکھار لا سکوں۔ اساتذہ کرام تک ہماری تحریریں پہنچتی رہتی ہیں ان کی جانب
سے بہت زیادہ حوصلہ افزائی بھی وصول ہوتی رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ ان
سے جو کچھ سیکھنے کو ملتا رہتا ہے وہی تحریروں میں بہتری لانے کے لیے ضروری اور مددگارہے۔ ان سے جو چیز سب سے زیادہ سیکھی وہ اپنی تحریروں میں امید اور مُثبیت کے عنصر کو
ہمیشہ برقرار رکھنا ہے۔ اساتذہ کرام نے احساس جگایا ہے کہ اللہ نے جو صلاحیت آپ کوسونپ
رکھی ہو اگر اس کا صحیح ومثبت استعمال نہ
کیا جائےیا پھرسرے سے اس خداداد صلاحیت کو بروئے کار ہی نہ لایا جائے تو اس کا
جواب دنیاوی ولاعلم ناقدین نے نہیں بلکہ
اللہ نے خود لینا ہے جو بے شک بڑا اور عظیم ذات کا مالک ہے۔
اپنی قلمی کاوش سے متعلق جب کہیں سے بھی اور تھوڑی سی بھی پسندیدگی
کا اظہار سامنے آتا ہے تو خوشی کے ساتھ ساتھ اپنے اندر اور بھی ذمہ داری کا احساس
ہونے لگتا ہے کہ مزید لوگوں کی آواز بن کراب پہلے سے زیادہ بہترلکھنا ہے ۔کوئی بھی
جملہ تحریر کرتے وقت یہ بات سب سے زیادہ میرے ذہن میں ہوتی ہے کہ نصیحتوں کا جمعہ
بازار لگانے کی بجائے کم از کم وہی لکھا جائے جس پہ خود بھی عمل کیا جا رہا ہو اور میرے لکھنے میں قول و فعل میں تضاد کا سا معاملہ نہ ہو۔ استادِ محترم
فرماتے ہیں کہ جب لوگ عملاً خود کچھ کرنے
کی بجائےدوسروں پر نکتہ چینی کی روش
اختیار کرتے ہیں تو پھر منفیت بڑھتی اور
نفرت پھیلتی ہے۔
ہمارے دوست تحریروں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔قلمی
سفر کے آغاز میں ایک واقعہ پیش آیا جس کے بعد کبھی کبھی شرارتی انداز اپناتے ہوئے
بعض اوقات یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہاری تحریروں پر کبھی ان لوگوں نے کوئی منفی ردِ
عمل ظاہر نہیں کیا جنھیں ہم سمجھتے ہیں کہ
یہ ان کے لیے لکھی ہوں بلکہ ہمیشہ غیر متعلقہ افراد ہی ظاہر ہوئے ہیں جنھوں نے خود
ساختہ تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہےجس کا تمہارے لکھے سے دور دور تک کوئی واسطہ
نہیں ہوتا۔اور اگر غور کریں تو اکثر ان میں وہ ہوتے ہیں جو مطالعہ تو دور بلکہ ان
کا اردو سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ واقعہ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ابتدائی دنوں میں جب سوشل
میڈیا کے ذریعےلکھنا شروع کیا تھا تو اپنےقلم سے پہلی آواز میں نے کسی مظالم کے خلاف اٹھائی تھی اور مجھے اس بات پہ
ہمیشہ فخر رہے گا ۔ پہلے تو چند لوگ مذاق اڑاتے رہے میری تحریر پر نہیں بلکہ میرے
آواز اٹھانے پر۔ ایک موصوف فرمانے لگے کہ آپ جذباتی پن کی انتہاؤں پر ہیں، اگر
اتنا ہی شوق ہے صحافت جھاڑنے کا تو جا کر قومی نیوزچینل جوائن کر لیں۔ اور اسی طرح
کے جملے اور باتیں مجھے اس کے جواب میں اس مخصوص طبقے کی جانب سے ملتی رہیں۔ یہ
ساری بے جا تنقید کرنے والے ان سب افراد کا تعلق کسی سیاسی ، مذہبی یا اہم جماعت و
ادارے سے نہیں تھا نہ ہی تعلیمی قابلیت
اور خاندانی پسِ منظر کوئی ایسا تھا جہاں تعلیم کا خاص رجحان ہو۔
ابتدائی دور تھا تو مجھے غصہ بھی بے انتہاآیا تھا۔ رپورٹ
استادِ محترم تک پہنچی وہ خود چل کر میرے پاس آئے اور فرمایا کہ تم بھی نادان ہو
کن لوگوں کی باتوں پر رنجیدہ ہو کر بیٹھی ہو۔اللہ نے تمہیں بہترین صلاحیت اور بہت
بڑی طاقت دے رکھی ہے قلمی طاقت پاس ہونا کوئی عام یا معمولی بات نہیں ہے اور تم
بلا شبہ غیر معمولی صلاحیت والی انسان ہو۔تم
نے جو کچھ لکھا حرف بہ حرف سچ اور مثبت لکھا
اور مجھے اس بات کی خوشی ہے۔ ابھی جو یہ سب لوگ باتیں کر رہے ہیں ان کی کوئی اہمیت
ہے نہ ہی کوئی مرتبہ۔ پتا نہیں میں اس وقت موجود بھی ہوں گا یا نہیں مگر تم میری
بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ آج یہ جہاں ہیں
انہوں نے بعد میں بھی یہیں بیٹھے رہنا ہے تم خود دیکھو گی کہ یہ سب لوگ کبھی اپنی
زندگیوں اور شعبوں میں آگے نہیں بڑھ پائیں گے اور گمنامی کی زندگی گزاریں گے۔ تم
نہیں جانتی اللہ نے تمہارے لیے کیا کچھ اور کہاں کہاں لکھ رکھا ہےجب تمہیں نوازا
گیا تو خود حیران ہو گی۔ بس تم نے لکھنا نہیں چھوڑنا اور حق و سچ کا دامن اپنانا کبھی
نہیں بھولنا۔استادِ محترم کی باتوں نے میرا بہت حوصلہ بڑھایا اور وہ ساری باتیں میرے
دل پر بہت اثر کیں جو اب تک نقش ہیں۔ اس بات کو تو اب کئی سال بیت گئے ہیں لیکن ان
کی کہی تقریباً ہر بات سچ ثابت ہوئی ہے ۔اللہ نے وقت کے ساتھ ساتھ مجھےاس قدر
نوازا ہے کہ میں جتنا اس کا شکر ادا کروں کم ہے۔
جب کوئی میرے والدین سے میری تحریروں کا ذکر کرتا ہے تو جو چمک
اور رونق ان کی آنکھوں اور چہروں پہ اس
وقت امڈ کر آتی ہے وہ میرے لیے سب سے حسین ہے۔ چند ماہ قبل والد صاحب کو کال کے
ذریعےپڑوسی ملک سے میری قلمی کاوش کی
حوصلہ افزائی اور نیک خواہشات لیے محبت بھرا
پیغام موصول ہوا اس محبت کے لیےمیں ان کی بہت مشکور ہوں۔بطور پاکستانی یہ بات میرے
لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے کیونکہ میرا ہمیشہ سے یہ خواب رہا ہے اور دعا بھی کہ اللہ مجھے اتنی توفیق دے کہ اپنے قلم سے اپنے ملک کا
نام روشن کر سکوں۔میرے ملک کا کوئی بھی شخص
بطور پاکستانی دنیا کے کسی بھی کونے میں اور کسی بھی محاذ پر کھڑا اس پیارے پاکستان کی نمائندگی کررہا ہے وہ میرے
لیے بے حد قابلِ احترام ہے۔
چند دن پہلے ایک پیغام ملا اور مجھے کہا گیا کہ علینہ! تمہارا بہت شکریہ ۔ میں بے
حد حیران ہوئی اور پوچھا کہ شکریہ؟ اورکس بات کا؟ معذرت چاہتی ہوں میں آپ کی بات
نہیں سمجھی۔مجھے بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ آگے سے مجھے اتنا محبت بھرا جواب ملنے
والا ہے جوصرف میری ء2020کی قلمی کا وش کے
لیے ہی نہیں بلکہ اپنے پورے قلمی سفر میں موصول ہونے والا بہت پیارا جملہ ہو گااور
وہ جملہ تھا کہ جب بھی تمہاری کوئی تحریر
پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ تم نے میرے لیے اور میری آواز بن کر لکھا ہے اس کے
لیے تمہارا بہت شکریہ۔
ایک مرتبہ ایک دوست
کے ساتھ کسی فرد نے انتہائی نا مناسب رویہ اپنایاتو انھوں نے مجھ سے شیئر کیا ۔میں
نے اپنی کسی تحریر میں اسے تھوڑا سا مزاح کا عنصر شامل کرتے ہوئے کچھ ردوبدل کے ساتھ
یوں لکھنے کی کوشش کی کہ اگر نامناسب رویہ اپنانے والے تک وہ پہنچے بھی تو انھیں گراں نہ گزرے۔اس تحریر کو سوشل میڈیا پر پڑھنے
کے بعد مجھے میری ان دوست کا پیغام ملا کہ تم بہت شرارتی ہو ہم تو تمھیں بہت
سنجیدہ لڑکی سمجھتے تھے لیکن تم سمجھدار شرارتی ہو ۔میں اپنے بارے میں اس منفرد رائے
کو سن کر بے ساختہ ہنس دی۔وہ تحریر اس فرد تک بھی پہنچی مجھےجب کال آئی تو ایسا لگا کہ بس ابھی دھمکیوں اور
گالیوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ بہر حال میں چونکہ لوگوں سے کوئی بہت زیادہ
توقع باندھنے والا مزاج نہیں رکھتی نہ ہی
اللہ کے علاوہ کسی اور کا ڈر دل میں کنڈلی
مارے بیٹھا ہےاس لیے دل ہی دل میں ان کے متوقع کسی بھی قسم کے منفی رویے کو
سنجیدگی سے نہ لینےکا ارادہ کرتے ہوئےان کی بات سننے لگی۔وہ تو میری پہلی سوچ سے
بالکل متضاد بات ہی فرما رہے تھے۔ کہنے لگے کہ میرے اس منفی رویے کو لوگوں کی جانب
سے نا پسند کیا جاتا ہے اور لوگوں کے
درمیان میرے بارے میں اس حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں ہے۔میں نے کہا کہ آپ کو میرا لکھا پڑھ کر برا
محسوس ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ارے نہیں بھئی! یہ جھوٹی افوہ تم تک کس نے پھیلا دی؟ بلکہ
مجھے اپنے کردار کے بارے میں پڑھ کر اتنا اچھا لگا ہے کہ میرے منفی رویے کو سب نے
ایک دوسرے تک ہمیشہ مزید برا بنا کر ہی پیش کیا ہے مگر تم نے الگ ہی انداز دیا ہے
جو مجھےبالکل بھی برا نہیں لگا۔
بحیثیت لکھاری
لوگوں کے بارے میں میرے علم میں اس
بات کا اضافہ ہوا ہے کہ ہر کوئی اپنی سوچ اور تربیت کے لحاظ سے بولتا ہے۔ جب
ہم نئے نئے کالج میں داخل ہوئے تھے تو پرنسپل صاحبہ نے فرمایا تھا کہ گھر سے باہر
آپ سب اپنے اپنے خاندان اور گھرکے نمائندے
ہوتے ہیں۔ آپ کا ہر عمل آپ کی تربیت کرنے والے ہاتھوں کی جانب توجہ دلاتا ہے۔ اللہ
کا شکر ہے کہ کبھی کسی تحریر پہ کوئی ایسا منفی ردِ عمل نہیں آیا جو بہت شدید ہو
لیکن لکھاری کے لیے تھوڑا سا بھی ردِ عمل چاہے مثبت ہو یا منفی وہ ہمیشہ بہت زیادہ
ہی ہوتا ہے۔اختلافِ رائے ہر ایک کا حق ہے مگر جب آپ کسی کی رائے سے اختلاف رکھتے
ہیں تو ذہن میں رکھیں کہ اختلاف چاہے لاکھ
ہوں مگرہر انسان کی عزت کرنا دوسرے پر لازم ہے۔صوفیاء نے بھی عزت کا درس ہی دیا ہے۔ زندگی کے ایسے کئی
مقام آئے کہ دوستوں نے منفی کرداروں کو بے نقط سنانے اور میرے لیے ان سے لڑنے کی
ٹھانی تو میں نے ان کی محبت کاشکریہ ادا کرتے ہوئے ایسا کرنے سے انھیں روک
دیا کیونکہ جب کوئی منفی بات کہتا ہے یا
برا رویہ اپناتا ہے تو جواب میں خواہ مخواہ بے عزت کرنے کا وقت میرے پاس نہیں ہوتا۔ اس لکھاری کے سوا اس سے زیادہ خطرناک کچھ
نہیں جس کے جذبات مجروح ہوئے ہوں اس لیے بس اتنا ہوتا ہے کہ میری زندگی میں ایسا
کوئی بھی ہو وہ خاص سے عام ہو جاتا ہے۔
یہ سارے واقعات اور باتیں لکھنے کا مقصد اپنے منہ میاں مٹھو
بننا ہر گز ہرگز نہیں ہے۔لوگوں پر اپنے کسی کام کی دھاک بٹھانا اور اپنی
ذاتی حیثیت کا رعب جھاڑنا میری ترجیحات میں کبھی نہیں رہا۔مجھے اساتذہ اور
میرے والدین سے کبھی یہ تربیت نہیں ملی کہ اپنی خوبیاں بڑھا چڑھا کر پیش کرو نہ ہی
انھوں نے ہمارے لیے کبھی ایسا دوسروں کے
سامنے کیا ۔بالخصوص میری والدہ جوخود بھی لکھتی رہی ہیں انھوں نے بھی مجھے لے کر
دنیا میں میرے قلمی رجحان کو کبھی نشر نہیں کیا۔ ہم نے تو کیا بلکہ دوسروں نے بھی
کبھی ان کے منہ سے ان کی اپنی قلمی
صلاحیتوں کا تذکرہ بھی نہیں سنا ۔ لوگ ہماری تحریریں پڑھ کر میرے والد سے کہتے ہیں
کہ آپ نے تو گھر میں آرٹسٹس گوہرِ نایاب کی
طرح چھپا رکھے ہیں۔ مجھے کئی مرتبہ پیغام موصول ہوتے ہیں کہ آپ کی والدہ میں
کمال عاجزی ہے ان کے انداز اور باتوں نے ہمیں آج تک کبھی یہ ظاہر ہی نہیں ہونے دیا
کہ وہ اتنا اچھا لکھتی رہی ہیں۔
اس تحریرکو لکھنے کی وجہ صرف اور صرف چاہنے اور مجھ سے بے
پناہ محبت کرنے والوں تک بہت سا پیار اور ڈھیروں دعائیں بھیجنے کے علاوہ اور کچھ
نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی میرے قلمی کام کو سراہتا ہے تو اکثر
مجھے فوری طور پہ سمجھ بھی نہیں آتا کہ اس وقت ایک دم سے میں اتنی محبت کا جواب
کیسے اورکن الفاظ میں لوٹاؤں۔ جو قارئین پاکستان میں میری تحریریں پڑھتے ہیں، وہ جو بیرونِ ملک مقیم ہیں اور جہاں جہاں بھی
اردو پڑھنے، لکھنےاورسمجھنے والے میری تحریروں کو وقت نکال کر پڑھتے ہیں ، میرے
لیے حوصلہ افزائی اور چاہتوں بھرے، دعاؤں والے پیغامات بھیجتے رہتے ہیں میرے لیے فرداً فرداً سب کا نام لکھ کر
شکریہ ادا کرنا اس ایک تحریر میں تو مشکل
ہو جائے گامگر میں آپ سب کا ، ایک ایک
قاری کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں آپ لوگ اسی طرح مجھے اپنی دعاؤں میں یاد
رکھیے ۔ میری دعا ہے کہ آپ سب جہاں بھی موجود ہوں اللہ سب کو خوش وآسودہ حال میں رکھے اور آنے والا نیا سال 2021ءآپ کے لیےرحمت،
برکت، خوشیوں اور سکون والی زندگی کی ابتدا ثابت ہو، آمین۔
از قلم، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں