خواتین کا عالمی دن


آج خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ خواتین کے حقوق اور جو مقام اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائےہیں اس کا احترام کیجئے۔ رسول اللہ ﷺنے خواتین کی عزت کا جو پیغام ہمیں عملاً دیا ہے اس کو اپنایئے۔موقع کی مناسبت سے  میں  سب سے پہلےتمام مذہبی و معتبر  خواتین ہستیوں کو سلام پیش کرتی ہوں  جو رہتی دنیاتک ساری خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔تحریکِ پاکستان میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر قابلِ ذکر خواتین  نے اپنی  بہترین اور نا قابلِ فراموش خدمات تاریخی طور پہ رقم کی ہیں ۔ان ایسی ہر خاتون کو ہمیشہ قوم کی محسنہ کے طور پہ یاد رکھا جائے گا۔

میری زندگی بہت سی خوبصورت دل والی ذاتی مفادولالچ کے بغیر بے لوث محبتیں بانٹنے والی خواتین سے جڑی رہی ہے۔ میں سب کا ذکر ایک ہی  تحریر میں نہیں کر پاؤں مگر کچھ کے بارے میں لکھ رہی ہوں۔ والدہ  کے علاوہ اور اسکول کے زمانے سے لے کرکالج اور  یونیورسٹی کی تعلیم تک بہت سی  پُر خلوص خواتین اساتذہ کا ہماری تعلیم و تربیت میں ہاتھ رہا ہے۔ ان سب کی عظمت کو سلام۔

ہم تینوں بہن بھائی نے قرآن شریف کی ابتدائی تعلیم بہت نیک، عبادت گزار، محبت و شفقت  کرنے والی اپنی نانی جان کی ہم عمرایک خاتون سے حاصل کی۔ان کا تعلق دہلی سے تھاجن کا سارا خاندان قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ ہمارا ان سےبڑا  عقیدت، محبت اور احترام کارشتہ تھا ۔ہمیں ان کا اصل نام تو معلوم نہیں مگر ہم سب انھیں اماں جی کہا کرتے تھے۔ مجھے آج تک اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے زندگی میں ایک بار بھی کبھی ہمیں نہیں ڈانٹا۔ہماری والدہ کہتی رہ جاتیں کہ بچوں کی غلطی پہ بے شک کبھی آپ انھیں ڈانٹ بھی لیا کریں مگر وہ بس مسکرا دیا کرتی تھیں۔ والدہ کہتی تھیں کہ میرا بیٹا گھر میں شرارتی ہے تو وہ کہتیں کہ تم لوگ دیکھنا سب سے زیادہ ذہین بھی یہی ہوگا۔ ان سے قربت کا رشتہ ہی ایسا تھا کہ ہم آج بھی انھیں بہت  زیادہ یاد کرتے ہیں۔ پیاری اماں جی! اللہ آپ کو غریقِ رحمت کرے، آمین۔

ہم اپنی نانی جان سے بہت قریب رہے ہیں۔ہماری نانی جان بے تحاشا اور بے غرض محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ خاندان میں سب بچے انھیں بڑی اماں کہتے تھے۔ان کا احترام اور ان سے عقیدت اپنی جگہ مگر وہ ایسی زندہ دل شخصیت تھیں کہ بچہ بڑا ہر کوئی ان سے بے تکلف تھا۔ مگران سے ہنسی مذاق میں بھی احترام کا عنصر ہمیشہ موجود رہا۔ ان کی شخصیت میں ایک جادوئی تاثیر تھی کہ اپنوں کے علاوہ غیر لوگ بھی ان سے گھل مل جاتے تھے۔ جو  سلیقہ، ذائقہ، مہمان نوازی، بغیر نفع و نقصان کی پروا کیے محبتیں بانٹنے اور چاہتیں بکھیرنے والے رنگ ان کے ہاں سے ملتے رہے ہیں وہ آج تک ہر دور میں کم ہی ملے ہیں۔اکثر لوگ آج بھی ان کی محبتوں کا ذکر کرتے ہیں اور جو چیز ان سے سیکھی ہے محبت اور فخر سے اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ فلاں چیز بڑی اماں سے سیکھی یا ان کے ہاں سے ہمیں ملی۔پیاری اماں!اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے، آمین۔

ہماری خالہ کی طرح خوش اطوار ،سمجھدار ، سلیقہ شعار اور شفقت کرنے والی کوئی خاتون  ہم نے اپنی زندگی میں بہت کم دیکھی ہے۔ پیاری خالہ جان! میں جب بھی اپنے لاڈلے بھانجے محمد ولی کو دیکھتی ہوں تو مجھے آپ کی بے لوث چاہت بہت یاد آتی ہے۔ مجھے آپ کے ان جذبات  اور محبت کی اور بھی زیادہ اہمیت محسوس ہونے لگتی ہے جو بطور خالہ ہم تینوں کو آپ سے ہمیشہ ملی ہے۔ آپ چاہے ذہنی و جسمانی طور پہ کتنی ہی تھکاوٹ محسوس کیوں نہ کر رہے ہوں مگر بھانجے بھانجی کی جانب سے کوئی بھی سکھ یا تکلیف اپنی دیگر ترجیحات سے کیسے زیادہ اہم ہوکر رہ جاتی ہے مجھے آپ کی وہ محبت محمد ولی کی موجودگی کے بعد اب زیادہ سمجھ میں آئی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، آمین۔

نور جہاں آنٹی اور انکل افضال کے گھر ہم نے اپنے بچپن کا ایک حصہ گزارا ہے۔وہ گھر جہاں ہمیں ہمیشہ بے انتہا محبتیں ملی ہیں ۔خواتین اور خصوصاً بڑوں کا احترام جو اپنے بچوں فیصل بھائی، سیمیں آپی، بلال بھائی اور جنید بھائی کو انھوں نےسکھایا ہے آج کل کے زمانے میں مفقود ہوتا جا رہا ہے۔میں جب اپنے ان بہن بھائیوں کے بچوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے کہ جو کچھ انھوں نے اپنے والدین سے سیکھا ہے وہی عزت و احترام انھوں نے اپنے بچوں میں بھی منتقل کیا ہے۔ خواہ وہ گھر میں آتے جاتے ہوئے گھر والوں کو سلام کرنے کی عادت ہو یا کسی کے احترام میں کھڑا ہونا ہو اس خاندان میں سب لوگ نہ صرف یہ اخلاقیات بخوبی جانتے ہیں بلکہ اس پہ عمل بھی کرتے ہیں۔جب ان سے ہماری والدہ اور ہم نے اس بات کا ذکر کیا تو آنٹی کی عاجزی  کا یہ عالم ہے کہ انھوں نےاس بات کا کریڈٹ خود نہیں لیابلکہ انکساری کا اظہار کیا۔ پیاری آنٹی نور جہاں! اللہ آپ کو صحت و تندرستی اور سب بچوں کی خوشیاں دیکھنا نصیب فرمائے، آمین۔

مختلف اخبارات، میگزینز اور خواتین کے  شائع ہونے والے ڈائجسٹوں کی بھی بہت سی خواتین لکھاریوں کی تحریریں زیرِ مطالعہ رہی ہیں۔ ایڈوانس ٹیکنالوجی کی بدولت سوشل میڈیا پر لکھنے والی ہمارے ملک کی اتنی  باصلاحیت خواتین لکھاری موجود ہیں جواپنی صلاحیتوں کے باعث دیگر ممالک میں بھی بطور پاکستانی رائٹرز اپنا نام بنا رہی ہیں۔

اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے۔ لیکن جب کسی لکھاری کی لکھی کوئی بات سے اختلاف ہو  بالخصوص خواتین لکھاریوں کی تو اختلافی جملہ لکھنے کی بجائے ایسی ایسی زبان لکھی جاتی ہے جو یہاں تحریر کیے جانے کے بھی قابل نہیں ہے۔ خواتین کی عزت کا مذہبی لحاظ سے خصوصی حکم ہے۔ دنیا مکافاتِ عمل ہے خدانخواستہ اگر آپ کے گھر کی خواتین کے ساتھ ایسا کوئی ناروا سلوک کسی برےحادثے کی صورت میں پیش آ گیا تو یقیناً آپ کو یہ بات ناگوار ہی گزرے گی۔لہذا سوشل میڈیا کے کمنٹس سیکشن میں طوفانِ بدتمیزی مچا نےسے بہتر ہے کہ آپ اپنے وقت کو منفیت میں برباد کرنے کی بجائے کسی مثبت کام میں خود کو مصروف رکھیں۔

جب آج کے دن خواتین کے حقوق کا مطالبہ خصوصی طور پہ کیا جاتاہے تو یہ سننے میں آتا ہے کہ کون سے حقوق؟ اللہ نے کئی سال پہلے عورت کے حقوق مقرر فرما دیے پھریہ کس حقوق کے مطالبے ہو رہے ہیں۔  جی بالکل درست بات ہے  اور ہر بار یہی تو کہااور سمجھایاجاتا ہے کہ جب ایک چیز اللہ اور رسول اللہﷺ نے واضح طور پہ مقرر فرما کے بتا دی ہے تو آپ  بھی عملی طور پہ  اب  اس کو سامنے لے کے آئیں ۔ استادِ محترم فرماتے ہیں کہ قدرتی طور پہ انسان کے پاس انرجی کا صرف ایک ہی سیل ہےاسے بولنے کی بجائے عمل کرنے میں صرف کرنے کو ترجیح دینی چاہیئے۔

از قلم، علینہ ظفر

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟