آٹو گراف اور چند یادیں


 

آج سے چند سال پہلے کاغذ پہ آٹوگراف لینے کارواج ہوا کرتا تھالیکن اب  تو زیادہ تر سیلفیز   نے اس کی  جدید صورت اختیار کر لی ہے۔ آج جب ایک قلم اور ڈائری کی تلاش میں ڈھیروں کاغذوں کے پلندے  اور کتابوں والی اپنی الماری کھولی تو میری آٹوگراف والی ڈائری بھی ہاتھ میں آ گئی۔اس پہ کچھ نامور شخصیات کے آٹوگرافس موجود ہیں جو میں نے مختلف موقعوں پر ان سے لے رکھے ہیں۔ 

یہ آٹو گراف ڈائری میرے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ اس پہ درج ہر آٹوگراف سے جڑی کوئی نہ کوئی ایسی یاد یا قصہ ضرور ہے جس کے یاد آتے ہی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ میں اسے کھولے دیکھ رہی تھی تو مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ کر بہن نے پوچھا کہ کیا پڑھ کے مسکرا رہی ہو؟ میں نےآٹوگراف  ڈائری کا جو صفحہ کھولا ہوا تھا   اس پہ لیجنڈری کرکٹر اور پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم جناب عمران خان کے دستخط موجود تھے۔ وہ صفحہ میں نے اس کے سامنے کر دیا تو وہ بھی مسکرا دی۔

جناب عمران خان صاحب کا یہ آٹو گراف ان کے دورِ اقتدار سے کئی سال پہلے تقریباً دس سال پرانا ہے۔وہ لاہور کے ایک علاقے میں آئے تھے تو ہم سب بہت زیادہ پُرجوش تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میرے والد صاحب، بھائی طلحہ اور چچا زاد بھائی اسد کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔ ہم سب یوں خوش تھے جیسے وہ لاہور میں کسی اور کے نہیں بلکہ ہمارے اپنے گھر تشریف لا رہے ہوں۔ جو لوگ خان صاحب کے بے حد چاہنے والے ہیں وہ اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان سے محبت کی دیوانگی کا کچھ ایسا ہی عالم ہوتا ہے۔

اسد جو اس وقت عمر میں کافی چھوٹا تھا اور اسکول کا طالبعلم تھا مجھےاس کی کال آئی وہ بے حد پُرجوش تھا۔ وہ خوشی سے تقریباً چلاتا ہوا  فون پر مجھے کہنے لگا کہ  علینہ آپی!آپ ایسا کرو کہ طلحہ بھائی کے ہاتھ اپنی آٹو گراف ڈائری یا پین پیپر بھیج دو۔ ہم وہاں عمران خان صاحب سے آٹوگراف بھی لے لیں گے۔ تھوڑی دیر بعد طلحہ ایک قلم کے ساتھ میری آٹوگراف ڈائری اور اسد اپنا با  (کرکٹ بیٹ)لے کر میرے والد صاحب کے ہمراہ خان صاحب سے ملنے چلے گئے۔

جب ان سب کی واپسی ہوئی تو وہ بے حد خوش تھے۔ خوشی سے بے حال اسد نے ہمیں اپنا وہ بلا دکھایا جس پر عمران خان صاحب کے دستخط تھےجبکہ طلحہ نے مجھے وہ صفحہ کھول کر دکھایا جس پہ عمران خان صاحب کا آٹوگراف درج تھا۔ میرے والد صاحب اور طلحہ تو خان صاحب سے ملاقات کے بعد سحر زدہ سے تھے ۔ میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ کو خان صاحب سے مل کر سب سے زیادہ اچھی بات کیا لگی؟ کہنے لگے کہ بہت سادہ بندہ ہے،  سب سے بڑھ کر یہ پاکستان کے لیے بہت مخلص ہے،بہت گریٹ آدمی ہے، اللہ عمران خان صاحب کو تندرستی و زندگی  دے اور خوش رکھے، آمین۔

یہی بات میں نے بھائی سے پوچھی تو اس نے کہا کہ عمران خان دنیائے کرکٹ میں اتنا معتبر نام ہے  لیکن کرکٹ میں اتنی اچیومنٹس  حاصل کرنے کے بعد  بھی  ان کی شخصیت میں سادگی برقرار ہے اور مجھے ان کی یہ سادگی بہت اچھی لگی۔ پھر میں نے اس سے آٹوگراف لینے کے بارے میں بھی پوچھا تو کہنے لگا کہ میں نے آٹو گراف کے لیے جو قلم انھیں دیا تھا اسی قلم سے عمران خان صاحب نے وہاں موجود اور لوگوں کو بھی آٹوگرافس دیے تھے۔  جب آٹوگراف کا سلسلہ مکمل ہوا  اورخان صاحب  نے مجھے وہ قلم واپس لوٹایا تو میں ان کی یاداشت  پر حیران رہ گیا کہ اتنی بھیڑ اور ہجوم میں بھی  انھیں یہ یاد تھا کہ ان کے ہاتھ میں کس کا قلم ہے۔مجھے یہ سن کر بہت اچھا لگا اورطلحہ سے  کہا کہ اس بات کے علاوہ خان صاحب کا یہ رویہ ان کےاندر موجود احساسِ ذمہ داری کو بھی تو ظاہر کرتا ہے۔

جناب  عمران خان صاحب کوجس وقت ملک کی باگ ڈور سنبھالنا پڑی ہے  بلاشبہ وہ ایک انتہائی مشکل ترین دور ہے۔ایک طرف اداروں میں کرپشن کے خلاف جنگ اور دوسری جانب مہنگائی کے طوفان سے نمٹنا اس صورتحال میں آسان کام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں لوگ بہت سادہ ہیں وہ تقریباًستر سالوں کی خرابی خان صاحب سے محض ان چند سال میں ختم کرنے کی توقع کرتے ہیں اور پھر جلد ہی حساب  بھی مانگتے ہیں۔ جو یہ بات کہتے ہیں کہ خان صاحب ملکی صورتحال پہ قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں اور انھیں عہدہ چھوڑ دینا چاہیئے تو پھر وہ لوگ کوئی ایسا لیڈر سامنے لے آئیں جو خان صاحب سے بہتر ہو جو فی الحال تو کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ہمیں وہ پرانے  حکمران ملک پہ دوبارہ مسلط نہیں کرنے جن کے لیے اپنی ذات ہی سب کچھ ہے اور ملک سے انھیں کوئی لگاؤ یا ہمدردی نہیں ہے انھوں نے پاکستان سے غداری کی ہے اور اس کو صرف نقصان پہنچایا ہے ۔ 

استادِ محترم فرماتے ہیں کہ تمہیں پاکستان سے یوں عشق ہو کہ جب اس کا کوئی نقصان ہوتے ہوئے دیکھو تو تمہیں یہ محسوس ہو کہ تمہارا اپنا کوئی ذاتی نقصان ہوا ہو۔ کشیدہ حالات کے باوجود بھی عمران خان صاحب  امید کا جگنوہیں جو اندھیرے میں حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیتا۔  لوگ ان کی ظاہری شخصیت سے متاثر ہوتے ہوں گے مگر ہم تو یہ جانتے ہیں کہ خان صاحب کے دل میں پاکستان کا درد موجودہے۔ انھیں اپنی ذاتی رہائش والی عمارت سے نہیں بلکہ پاکستان سے عشق ہے پاکستان  ان کی ذات ہے اور وہ پاکستان کو ہی اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ عاشقِ پاکستان جناب عمران خان صاحب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور جس سخت ترین محاذ پر وہ اس وقت لڑ رہے ہیں اللہ انھیں کامیابی سے ہمکنارفرمائے، آمین۔

ازقلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟