والد صاحب کے دوست

آج دل صبح سےبہت اداس ہے۔ہمارے والد صاحب کے بہت پرانے بے حد قریبی اور مخلص دوست ارشد مسعود خان صاحب کورونا میں مبتلا رہنے کے باعث مختصر علالت کے بعد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ارشد انکل کے لیے ان کی غیر موجودگی میں اس تحریر کو لکھنا میرے لیے بہت تکلیف دہ احساس ہے۔ ان سے تعلق محض ہمارے والد صاحب کا ہی نہیں بلکہ ہمارے اور ان کے خاندان کے تقریباً سبھی افراد سے ہے۔

 میری ان سے جتنی مرتبہ بھی ملاقات رہی ہے ہمیشہ محبت اور شفقت ہی سمیٹی ہے۔میں نےان ایسا  اتنی عزت و محبت دینے اور شفقت کرنے والا کوئی شخص بہت کم دیکھا ہے۔ارشد انکل کی اہلیہ بھی بہت محبت کرنے والی خاتون ہیں۔ارشد انکل خود بھی شعبہ تدریس سے منسلک رہے اور ان کی اہلیہ بھی اسی شعبہ سے وابستہ رہیں۔

چند سال پہلے جب پاپا کی زبانی انھیں علم ہوا کہ میں انٹرمیڈیٹ اور بہن بھائی بھی اس وقت اپنے سالانہ امتحانات سے فارغ ہو چکے ہیں تو  وہ چاہتے تھے کہ چھٹیوں میں ہمارا وقت یوں بے کار میں ضائع نہ ہو۔ اس لیے انھوں نے ہمیں اپنے پاس بلا لیا اور انگلش گرائمر میں ہماری مدد کرنے لگے۔ اسی دوران ان  کی بھتیجی مائرہ اور بھتیجے شہروز عرف شہزی سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہم سب کی آپس میں گپ شپ بھی خوب رہی۔

ارشد انکل  اس دور کو بھی بہت یاد کرتے تھے جب پاپا اور وہ دونوں سعودی عرب میں رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جب ظفر(ہمارے والد صاحب)آغاز میں سعودیہ آیا تھا تو عربی نہیں جانتا تھا۔ فراغت کے لمحات میں  ٹی وی پر میں عربی زبان کے ڈرامے دیکھا کرتا تو ظفر ساتھ بیٹھا ہوتا تھا اور میں اس کو ترجمہ کر کے ڈرامے کے ڈائیلاگز بتا رہا ہوتا تھا۔ پھر اسے عربی زبان سمجھ میں آ گئی تو وہ بھی میرے ساتھ عربی ڈرامے دیکھا کرتا ۔ میں ہنس دی اور کہا کہ انکل! وہ تو پاپا اب بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ خوب محظوظ ہوئے اور کہا کہ دیکھا اب بھی دیکھ رہا ہوتا ہے نا۔ پاپا جب بھی عربی میں کوئی ڈرامہ دیکھ رہے ہوتے تو ہمیں ضرور بتاتے کہ ارشد کے ساتھ میں عربی ڈرامہ دیکھتا تو وہ ٹرانسلیٹ کر کے مجھے بتا رہا ہوتا تھا۔

سیاست اور کرکٹ پر ارشد انکل کے ساتھ ہماری سیر حاصل گفتگو ہوا کرتی تھی۔ جب پاکستان کرکٹ ٹیم نےٹی ٹونٹی کا ورلڈ کپ جیتا تو ہم سب بہت خوش تھے اور اگلے دن ان سےجتنی دیر تک بھی  ملاقات رہی ہم صرف کرکٹ پہ ہی بات چیت کرتے رہے۔ انھیں ہماری کرکٹ سے جڑی جذباتیت کا علم تھا اسی لیے اپنی انگریزی کو بہتر بنانے کے لیے وہ ہمیں انگریزی کرکٹ کمنٹری کو بغور سننے کی تلقین کیا کرتے تھے۔

مجھ سے جب کبھی کوئی طالبعلم ملتا ہے اور میں اس سے تعلیمی شعبےکے متعلق کسی مخصوص سبجیکٹ میں اس کی دلچسپی کی بات کرتی ہوں جسے وہ عملی زندگی میں اپنانے کی خواہش رکھتا ہو تو وہی اصول اسے بھی بتاتی ہوں جو میں نے ارشد انکل سے اپنے تعلیمی کریئرمیں  سیکھا۔ مجھے یاد ہے انھوں نے ہم سے باری باری یہ پوچھا کہ مستقبل میں آپ سب کے کیا ارادے ہیں؟میں نے مستقبل میں صحافت اور قانون پڑھنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ وہ سن کر بہت خوش ہوئے اور حوصلہ افزائی بھی کی۔ انھوں نے ایک یہ بات بھی سکھائی کہ ہمیشہ تعلیمی میدان میں تین مضمون کو ذہن میں رکھو کہ اگر ایک سبجیکٹ میں علم حاصل کرنے کی آپشن پاس نہ رہے تو اس قدر ڈس ہارٹ یا افسردہ   نہ ہو جاؤ کہ تعلیم کو خیر باد ہی کہہ بیٹھو۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہ دو آپشن تو ہیں کوئی تیسرا بھی سوچ رکھو۔ میں نے کہا میری تیسری آپشن پھر لٹریچر کی ہو گی۔ انھوں نے اس بات پہ میری بہت ہمت بڑھائی۔

جب میرا صحافت کی تعلیم میں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مجھ سے کہا کہ علینہ بیٹا! آپ کے جرنلزم سبجیکٹ میں ایڈمشن کا سن کر بے تحاشا خوشی ہوئی اللہ کامیاب کرے۔ میں نے شہزی اور مائرہ کو بھی بتایا کہ علینہ کا ایڈمشن ہو گیا ہے اب اس کا صحافت پڑھنے کا خواب ان شاءاللہ جلدی پورا ہو گا۔ بس بیٹا آپ اب صحافت کو جاری رکھنا۔

کہتے ہیں کہ اس شخص کو دوست مت بناؤ جو تمہاری عزت کا پاس نہ رکھتا ہو اور بھری محفل میں تمھیں شرمندہ کرے چاہے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔ان سے جب بھی ملاقات رہی ہے انھوں نے پرانی دوستی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مذاق میں بھی کبھی پاپا کے لیے کوئی ایسا منفی جملہ ہم سے نہیں کہا جس میں کسی بھی قسم کی کوئی طنزیہ آ میزش ہو۔ باہر ان کے آپس کےہنسی مذاق اور دوستوں والی بے تکلفی چلتی رہتی ہو گی مگر ہمارے سامنے ان کی بے تکلفی میں کسی معیوب بات  کا رنگ کبھی غالب نہیں آیا۔دوست وہی ہوتا ہے جسے اپنے کسی دوست کی لاج رکھنا آتی ہو ۔

سعودی عرب میں وہ دونوں کافی عرصہ ایک ساتھ مقیم رہے ہیں سو ہمارے والد صاحب سے ان کا بے تحاشا محبت کا رشتہ استوار رہا ہے۔ پاپا اور ارشد انکل ایک دوسرے کو سلام دعا اور حال چال بھی عربی میں کہا اور پوچھا کرتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو اخویا کہہ کر بلایا کرتے تھے اخویا عربی میں بھائی کو کہتے ہیں۔ مجھے دلی رنج و دکھ ہے کہ اب ہم یہ لفظ کبھی دوبارہ اپنے گھر میں اپنے والد صاحب کے لیےارشد انکل  سے اوراپنے والد صاحب  کی زبان سے ارشد انکل کے لیے ادا ہوتے ہوئے ویسے کبھی نہیں  سن پائیں  گےجیسےفون کالز پہ اکثر ہم ان کی آپس کی گفتگو کے دوران سنا کرتے تھے۔ دوبارہ  اگر کبھی کہیں یہ لفظ پڑھا یا سنا بھی تو سب سے پہلے ارشد انکل ہی ذہن میں آئیں گے۔

چند دن پہلے ان کی اہلیہ کی زبانی علم ہوا کہ کورونا کے باعث طبیعت زیادہ بگڑنے پر وہ اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔پھر دو تین دن قبل ہی ارشد انکل کا اسپتال سے پاپا کو فون آیا وہ ان سے کہہ رہے تھے کہ میرے گھر واپس آنے کا  کسی بھی طریقے سے بندوبست کرو میں یہاں اسپتال میں ہی نہیں پڑا رہنا چاہتا۔ وہ چاہ رہے تھے کہ نظامِ تنفس کے لیے آکسیجن سلینڈر کا گھر پہ ہی کوئی انتظام ہو جائے اور وہ گھر واپس آ سکیں۔پاپا نے انھیں بہت تسلی دی اور اسپتال میں سگنلز کی کمی کے باعث رابطہ منقطع ہوتے ہی فون بند ہو گیا۔ اس کے بعد پاپا نے اپنے قریبی ڈاکٹرز کو سارا معاملہ بتایا تو ڈاکٹرز نے ارشد انکل کی حد سے زیادہ ناساز طبیعت کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔ آنٹی(ارشد انکل کی اہلیہ) پاپا سے رابطے میں رہیں اور پاپا نے انھیں یہ بات بتائی۔

 ارشد انکل سے پاپا کا وہ آخری رابطہ تھا جس کے بعد وہ بہت زیادہ بے چین رہے کہ اپنے پیارے دوست کے لیے وہ چاہ کر بھی ان کی خواہش پوری نہیں کر پائے کیونکہ ڈاکٹرز کے مطابق ان کی میڈیکل کنڈیشنز اس چیز کی اجازت نہیں دے رہی تھیں۔ہمارے والد صاحب اپنے بہت زیادہ پیارے اور جگری بھائی نما دوست کی جدائی میں جس غم و الم میں مبتلا ہیں میرے لیے ان کی کیفیت کو یہاں الفاظ میں تحریر کرنا آسان نہیں ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ ارشد انکل کے درجات بلند فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے،آمین ، ثم آمین۔ان کی اہلیہ، بھائی اور خاندان کے دیگر افراد بھی کورونا کا شکار ہیں اللہ ان سب کو صحتیابی اور صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ میری تمام قارئین سے ان سب کے لیے دعاؤں کی التماس ہے۔

از قلم، علینہ ظفر




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟