جنون کے 25 سال



یہ غالباً 1997ء کی بات ہے الیکشن کی گہما گہمی تھی۔ملک کی اس وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں مقابلہ عروج پہ تھا۔ ہر جانب پیپلز پارٹی کی امیدوار محترمہ بے نظیربھٹو اور مسلم لیگ نون کے امیدوار میاں محمد نواز شریف کے حق میں نعرے بازی سننے کو مل رہی تھی۔میں اس وقت بہت چھوٹی تھی اور سیاست میں انتہائی عدم دلچسپی تھی مگر بڑوں کو آپس میں سیاست پرتھوڑی بہت بحث کرتے دیکھا کرتی تھی۔ کچھ لوگ نون لیگ جبکہ دیگر پیپلز پارٹی کے حامی افراد تھے۔

 الیکشن والے دن عام عوام کی طرح ہمارے خاندان کے بڑے بھی ہم بچوں کو ساتھ لیے پولنگ اسٹیشنز کی جانب حقِ رائے دہی کے استعمال کے لیے رواں دواں تھے۔ راستے میں بڑوں کی آپس میں اپنی اپنی پارٹیوں کی حمایت میں نوک جھوک بھی چل رہی تھی۔ کبھی کبھی تودورانِ گفتگو ازراہِ شغل وہ ہم بچوں کو بھی شامل کر  لیتے کہ بچوہم لوگ جس امیدوار کو ووٹ دینے جا رہے ہیں تم لوگوں نے اس پارٹی کے سربراہ کے حق میں نعرے لگانے ہیں۔ ہم انھیں دیکھ کر محض مسکرا دیتے کہ ہماری سمجھ میں کم عمری کے باعث ان سب کی باتیں اور رویے سمجھ نہیں آتے تھے ۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت کی سیاست سے ناواقفیت کے باوجود بھی تب سے لے کرآج تک کبھی ان دو پارٹیوں کے حق میں ایسے کسی نعرے کے لیے زبان نے ساتھ دیا نہ ہی دل و دماغ نے۔

جب ہم پولنگ اسٹیشن پہنچے  تو میرے لیے ایک بات بے تحاشا باعثِ  حیرت تھی کہ میں نے وہاں 10سے 12سال کی عمر کا ایک بچہ دیکھاجو مجھ سے عمر میں چند سال بڑا تھا اور وہ ان دونوں پارٹیوں کے سربراہان کی بجائے کسی تیسری پارٹی کے سربراہ کے حق میں نعرہ لگا رہا تھا، "قدم بڑھاؤ عمران خان! ہم تمھارے ساتھ ہیں۔" میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی کہ شاید یہ بھی ہماری طرح اپنے بڑوں کے ساتھ یہاں پولنگ اسٹیشن آیا ہو مگر ایسا کچھ نہ تھا وہ اکیلا ہی وہاں پولنگ اسٹیشن کے باہرموجود تھا۔1997ءمیں میں نےزندگی میں پہلی مرتبہ پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب کے لیے اتنی چھوٹی عمر والاکوئی جنونی دیکھا تھا۔

پولنگ اسٹیشن آتے جاتے لوگ اسےیوں تنہا عمران خان صاحب کے حق میں نعرے بازی کرتے  دیکھ کر ہنستےکچھ تمسخر اڑاتےاورفقرے کستے گزر جاتے۔ ہم گھر واپس آ گئے مگر میرے ذہن میں یہ بات اب تک کے لیے نقش ہو کر رہ گئی۔1997ء کےالیکشن میں تو جناب عمران خان  صاحب کوئی خاطر خواہ  کامیابی حاصل نہیں کر پائے مگر ان کے اس سیاسی دور کا وہ حصہ بہت اہمیت کا حامل رہا۔

پاکستان کی محبت میں جنونی جناب عمران خان صاحب کےسیاسی سفر کی کٹھن اور سخت جدوجہد کو آج تقریباً 25 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے ذاتی اورمنفی مقاصد کو حاصل کرنے کی خاطر ڈٹ جایا کرتے ہیں مگر دوسروں کے لیے اپنے نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر لڑنےوالے لوگ نایاب ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب کی سیاسی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کیجئے مگر عمران احمد خان نیازی پاکستان اوراپنے پاکستانیوں کے لیے بدنیت اور انھیں لوٹ کھسوٹ کر پاکستان سے باہر اپنی ذاتی تجوریاں بھرنےوالا شخص ہرگز نہیں ہے۔ مہنگائی کا جو طوفان اس وقت برپا ہے اس پر قابو پاناقطعی آسان نہیں ہے۔ جب 2013کے الیکشن کا دور تھا تو سیاسی شعور رکھنے والےتب بھی اظہارِ خیال کر رہے تھے کہ عمران خان کو ابھی موقع ملنا چاہیئے ورنہ آنے والے دنوں میں ملک کو ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا جیسا اب ہم دیکھ رہے ہیں۔

جناب عمران خان کی حکومت کو اس وقت مہنگائی کے ساتھ ساتھ کورونا کی وبا کے خلاف لڑنے کا بھی سامنا ہے۔یہ دونوں جنگیں تنہا لڑنا کسی بھی خطے کے حکمران کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ اس جنگ کے خلاف لڑائی میں عوام کا ساتھ درکار ہے ۔مہنگائی کو کم کرنے کے لیے سادگی اختیار کرنے اور کورونا سے بچاؤ کے لیے ایس اوپیزپر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔عمران خان صاحب نے ان پچیس سالوں میں ہمیشہ اپنے ملک اور ملک  کے لوگوں کے لیے کھڑا ہونا چاہا ہے لہذا اس ملک کے لوگوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ مل کر پاکستان کے لیے کھڑے ہوں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کے خان جناب عمران خان کو ہمت اور کامیابی سے ہمکنار فرمائے، آمین۔

ازقلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟