ماؤں کا دن
آج کا دن ماؤں
کے نام سے منایا جا رہا ہے۔ آج رات کو یعنی 12 بجنے کے بعد جب ہم اپنی والدہ کو مدرز ڈے وش کر رہے تھے تو اس دن کو صرف ایک دن کے طور پہ ہی منانے کی روایت پہ اپنی والدہ سے مختصر لیکچرمگر در حقیقت طویل سبق سننے کو ملا ہے۔ ہم بھی ان کے خیالات سے متفق ہیں لیکن آج سب ہی اپنے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں تو سوچا اس روایت میں کچھ اپنا حصہ بھی ڈالا جائے۔
ملنساری اوردوسروں کے لیےدل میں بے غرض محبت رکھنا میری والدہ کو ورثے میں ملا ہے۔ بہت سے لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ میری والدہ کا تعلق بے غرض چاہتیں لوٹانے والے گھرانے سے ہے۔اس لیے مما جب کبھی کسی سے ملتی ہیں تو ملنے والے سے دوگنی بے لوث محبت سے ملتی ہیں۔ ان کی مہمان نوازی کو سب سے زیادہ محظوظ کیا جاتا ہے ۔ وہ کھانا بہت سادہ مگر لاجواب بناتی ہیں بہت سے لوگ ان سے ان کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانوں کی تعریف کرتے اور اس کی ترکیب لازمی پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ دیگر چیزوں کی پسندیدگی میں بھی ہماری والدہ کی چوائس بہت اچھی ہے۔
خیال رکھنے والے مزاج کے باعث انھیں ہر وقت سب کو کھلانے پلانے کی فکر لاحق رہتی ہے چاہے وہ ان کی اپنی اولاد ہو یا کوئی دوسرا۔ انھیں صرف دوسروں کو ہی کھلانے پلانے کی فکر رہتی ہے جبکہ اپنے کھانے پینے کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ آپ ان کے ساتھ پورا دن گزاریں وہ صرف آپ کو کھلانے پلانے میں اپنا سارا وقت صرف کر دیں گی ۔ اس پورے دن میں آپ ہماری والدہ کو کھاتے ہوئے نہیں دیکھیں گے اگر دیکھیں گے بھی تو بہت ہی کم۔ہم اکثر ان سے اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے پر بحث کر رہے ہوتے ہیں۔
مماہماری صحت کے حوالے سے بہت زیادہ فکرمند رہتی ہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہےکہ ان کے ساتھ ڈائٹنگ کرنا دنیا کا دشوار ترین کام لگنے لگتا ہے۔ وہ جب بھی کچھ پکاتی ہیں تو مجھے اسے کھانے پہ بے حد اصرار کرتی ہیں کہ تم زیادہ نہیں کھاؤ مگر چکھو ضرور۔ پھرمجھے دل رکھنے کے لیے صرف ایک نوالہ منہ میں ڈالنا پڑتا ہے۔ ورنہ ڈائٹنگ کے معاملے میں میں خاصی ڈھیٹ اور ضدی واقع ہوئی ہوں کوئی لاکھ ترلے منتیں بھی کر لے میں نے اپنے ڈائٹ پلان سےذرا سا ہٹ کے تھوڑی سی بھی چیٹنگ نہیں کرنی ہوتی۔مرغن اور وزن بڑھانے والے کھانا کھانے اور پکانےکے شوقین افراد میری اس عادت پہ میری والدہ سے کہتے ہیں کہ اگر ہم بھی ڈائٹنگ کے اس کارواں میں شامل ہو جائیں تو آپ کی یہ بیٹی تو ہمیں بھوکا ہی مار دے گی تو وہ ہنس دیتی ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اپنے والد کے ساتھ ساتھ ظاہری شکل و صورت میں اب میں اپنی والدہ سے بھی مشابہت رکھنے لگی ہوں۔ ورنہ زیادہ تر ظاہری شبیہہ میں میری بہن کو مما سے ملایا جاتا ہے۔مما اور مجھ میں بہت سی باتیں مشترکہ ہیں۔ کچھ چیزوں کا تعلق جینز سے ہے، کچھ عادات ہیں اور کچھ مزاج کا حصہ ۔ ایک مشترک چیز جو لکھنا ہے اس کے بارے تو سبھی جانتے ہیں کہ یہ والدہ سے جینز میں مجھے ملا ۔ اس کے علاوہ ہماری والدہ کو فون کالز وغیرہ میں ٹھیک ویسےہی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے جیسے مجھے نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس بات کو عادت کا نام نہیں دیا جا سکتا مجھے یہ مزاج کا حصہ لگتا ہے۔کوئی بہت زیادہ باتونی شخص ہی ہر وقت کسی کو کالز پہ کالز کر سکتا ہے ہم جیسوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
بہت سے لوگوں کو ہماری والدہ سے گلہ ہوتا ہے کہ وہ گھر سے کم کم نکلتی ہیں اور وہ فون کالز کے ذریعے بھی رابطہ نہیں رکھتیں۔ کم رابطہ رکھنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کوئی دلی طور پہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔بعض دفعہ گلہ کرنے والے تو خود ساختی ایسی ایسی باتیں بھی گھڑ لیتے ہیں جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔ یہ گلہ جب کسی ایسے شخص کی طرف سے آئے جو دل کے بہت قریب ہوتو دل دکھتا ہے۔
ہماری والدہ کو میری طرح شاپنگ سے عدم دلچسپی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی موقع یا محل آتا ہے تو اپنے اپنے وقت پہ نانی اور خالہ سے مما کو اور مجھے مما اور بہن سے بہت سی باتیں سننے کو ملتی رہی ہیں۔بے جا شاپنگ اور برینڈز، کپڑوں، جوتوں، میک اپ، جیولری کےنام کے راگ الاپتے خواتین و حضرات ہمیشہ ہی ہم دونوں کی سمجھ سے باہر رہے ہیں۔ یہ تمام چیزیں انسان کو کمپلیکس کا شکار کر دیتی ہیں اور کمپلیکس کو مما نے کبھی خود کے قریب نہیں آنے دیا اور ہمیں بھی اس سے دور رہنے کے بے شمار فوائد بتائے ہیں۔
بچپن میں گھر والے ہماری شاپنگ کے سلسلے میں ہمیں مارکیٹ ساتھ لے جانا چاہتے تو ہم ایک ہی نہ پکڑ کے بیٹھ جایا کرتے تھے۔اس کے بعد بازار سے گھر والے اگر اپنی پسند سے ہمارےلیے کوئی چیز لے آتے تو پسند نہیں آتی تھی۔ اچھی بھلی چیز میں ہزاروں نقائص گنوا کر رکھ دیتے لیکن بعد میں مجبوری کا نام دے کر اسے استعمال بھی کر لیا جاتا ۔ ایک دن مما میرے اس رویے پر نالاں ہو کر اماں جان(نانی) کو بتا رہی تھیں تو انہوں نے سن کر کہا کہ میری دھی کو کیاکہتی ہو تم خود یہ سب کچھ اپنے بچپن میں کر چکی ہو۔ اس دن مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ ایک یہ بات بھی ہم دونوں کی مشترک ہے۔یہ چیز اب وقت کے ساتھ ساتھ ہم میں اب کافی حد تک کم ہو کر رہ گئی ہے۔
پیارے بھانجے محمد ولی کی موجودگی میں اس کی اماں جان یعنی ہماری بہن انابیہ کا یہ دوسرا مدرز ڈے ہے۔تقریباً سوا دو سال کا چھوٹا سا محمد ولی کیا جانے مدرز ڈے کیا بلا ہے لیکن وہ محبت کی زبان اور چاہت کے جذبے کو سمجھتا ہے۔ جب اس کی خالہ نے اپنی مما کو مدرز ڈے وش کرنے کو کہا تو وہ اپنے سارے کھیل چھوڑ کر دوڑتا ہوا آ کر اپنی ماں سے لپٹ گیا اور ہمارے کہے بغیر ہی اس کے گال پہ پیار بھی کیا۔
ابھی وہ بہت چھوٹا ہےاورعمر کے ساتھ ساتھ ہی اس کے مزاج و عادات کی پرتیں کھلیں گی اس لیے اس کے مزاج، عادات اور رجحانات کے بارے میں لکھنا یا کہنا قبل از وقت ہو گا۔ پتا نہیں کیوں میں جب بھی اپنے یا اپنی والدہ کے ساتھ اس کا رویہ دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس کے اندر جو اپنی نانو اور خالہ کی محبت کا سمندر اس عمر میں ٹھاٹھیں مارتا ہےوہ اسے اپنی ماں کی طرف سے ورثے میں ملاہے۔ کیونکہ ہماری نانی اور خالہ جب تک حیات رہیں انابیہ اور ان کے درمیان محبت کی وابستگی کو ہم نے ہو بہو ایسا ہی قائم دیکھا ہے۔ اور یہ ان بے لوث چاہتوں کا ہی تو اثر ہے کہ ہم آج ان کے بعد بھی ان پیاری ہستیوں کو بہت یاد کرتے ہیں۔
آج سے تقریباً چھ سات سال پہلے ایک دوست کے چھوٹے بھائی نے میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔وہ مجھے بھی میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح پیارا ہے۔ میں نے اس کے گھر مبارکباد کی کال کی تو اس کی والدہ اس کے رزلٹ کو لے کر کوئی خاص خوش نہیں تھیں اس کے والد صاحب کا بھی کچھ ایسا ہی رویہ تھا۔ مجھے سوچ کر حیرت ہو رہی تھی کہ اتنے اچھے مارکس دسویں جماعت میں اگر ہم لیتے تو ہمارا تو خواہ مخواہ ہی دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا ہوتا۔ اس سے پہلے زیادہ تر میں نے بچوں کے کم نمبروں پہ والدین کو پشیمان دیکھا تھا مگر ادھر تو اسکالرشپ ملنے کے مواقع پر بھی سب اس بیچارے کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے تھے۔
میں نے آنٹی کو سمجھایا کہ اس کے مارکس بہت اچھے ہیں اس کا کہیں بھی اچھے کالج میں اسکالرشپ پہ داخلہ ہو سکتا ہے اسے ڈانٹنے کی بجائے حوصلہ افزائی کریں۔ مگر ان سب کا کہنا تھا کہ وہ اس سے بھی زیادہ اچھے مارکس لے سکتا تھا ۔ اس کی والدہ مجھ سے کہنے لگیں کہ تمہیں وہ بڑی بہنوں کی طرح سمجھتا ہے اسے تم بھی سمجھاؤ بے شک ڈانٹ بھی لینا۔ میرا ایسا کچھ بھی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا سو میں نے اسے مبارکباد اور حوصلہ افزاء کلمات کہنے کے سوا ایسا کچھ کیا بھی نہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ ماں باپ کی موجودگی میں کسی کے لاکھ چاہنے اور اجازت کے باوجود بھی یہ حق کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اپنےمعاملات میں ارد گرد کے لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں مشورہ لینا بہت اچھی بات ہے مگربعض اوقات ان لوگوں کی مداخلت گھریلو معاملات میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھر جھگڑے جنم لیتےاور گھر کا سکون جاتا رہتا ہے۔ کوئی ایسا معاملہ جو والدین اور اولاد آپس میں خود سلجھاسکتےہوں تیسرے کو اس میں فریق نہ بنانا ہی اچھا فیصلہ ہے۔
اگر کوئی مشورہ یا رائے مانگے تو فرض ہے کہ ان کے رشتوں میں نفرت اور غصے کی آگ کو مزید نہ دہکایا جائے بلکہ اسے مخلص اور مُثبت رائےدیں اور اپنے مشورے کو وہاں مسلط نہ کریں۔ ہمیں اساتذہ کرام نے ہمیشہ دوسروں کی ذاتیات سے دور رہنے میں بہتری کا درس دیا ہے چاہے وہاں تعلقات یا رشتے کتنے ہی گہرے اور مضبوط کیوں نہ ہوں اس لیے میں تب بھی دور رہی اور بعد میں بھی یہی کوشش جاری ہے۔ دوسروں کے رشتوں میں محبت کو دیکھ کر احساس کمتری یا حسد کا شکار ہونے کی بجائے ان کے حق میں دعا کیا کریں تاکہ اللہ آپ کے معاملات میں آسانیاں پیدا فرمائے۔
ماؤں کے عالمی دن کےحوالے سے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ جس طرح کسی ایک شخص کو اپنی ماں بہت عزیز ہے ٹھیک ویسے ہی دوسروں کی ماؤں کےبھی وہی عزت وحقوق ہیں۔جس شخص کے دل میں اپنی ماں کے لیے حقیقی محبت ہے وہی کسی دوسری عورت کی عزت کرنا جانتا ہے۔ والدین کے درجات اور اولاد سے متعلقہ تما م قرآنی آیات اور احادیث شریف جو آپ کو ازبر ہیں انھیں کسی اور کے والدین اور اولادکے لیے بھی اپنے ذہن میں رکھا کریں۔اللہ نے جن حقوق و فرائض کا حکم دے کر آپ کو پابند کیا ہے وہی سب باقیوں کے لیے بھی ہیں ۔ آپ کسی کے ساتھ حسنِ سلوک کے اہل نہیں ہیں تو کم از کم کوئی آپ کی بد سلوکی کا بھی مستحق نہیں ہے۔ اللہ سب کے رشتوں میں محبت، سکون، اتفاق اور برکت دے۔
از قلم، علینہ ظفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں