فادرزڈے

 


بحیثیت پہلی اولاد اور بطور بیٹی میرا اپنے والد صاحب سے رشتہ بہت حسین رنگوں سے بھرا ہے۔دورانِ تعلیم یونیورسٹی میں ہم نے فرانسیسی زبان کے چند بنیادی جملے سیکھے تھے جو ہماری ڈگری کا حصہ تھے۔ تب سے لے کر اب تک میرا یہ معمول ہے کہ پاپا جب بھی گھر میں داخل ہوتے ہیں تو سلام کے بعد میں فرانسیسی میں ہی  ان کا حال پوچھتی  ہوں۔ پہلے پہل تو وہ نا سمجھی سے مجھے دیکھتے اور کہتے کہ سیدھی طرح بات کرو۔ میں خوب ہنستی اور پھرایک دن  انھیں اس جملے کا ترجمہ   اور اس کا جواب بتا کر کہا کہ آپ بھی مجھے اس کا جواب فرانسیسی میں ہی ایسے بول کردیا کریں۔مگر وہ  مجھے اس کا جواب ہمیشہ پنجابی میں ہی دیتے ہیں۔ گھر والے اس بات سے بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ بھائی نے ایک دن کہا اس سے آگے بھی کچھ فرانسیسی میں بول لیا کرو۔ میں نے کہا فرانسیسی مجھے جتنی آتی ہے وہ سب سنا دی ہے۔

ہمارے والد صاحب کو کھانا پکانے کا شوق ہے۔ خودبہت اچھا کھانا پکانے کے باوجود جب تک وہ کچن میں مجھے اپنے پاس کھڑا نہیں کر لیتے انھیں تسلی نہیں ہوتی۔ میں کسی کام سے کچن سے باہر نکلوں بھی تو چند لمحوں میں ہی میرے نام کی پکار سننے کو ملنے لگتی ہے۔ بازار سے کوئی چیز خرید کر لاتے ہیں تو گھر کے اندر  داخل ہوتے ہی میری جو بھی اور جتنی مرضی بھی مصروفیت  ہو وہ چیز مجھے ہی تھماتے ہیں۔

مجھے ان کے ساتھ ملکی حالات اور سیاست پہ بات کرنا اچھا لگتا ہے۔ وہ گھرسے باہر اپنے کام پہ ہوں تو میں کال کر کے ضروری خبریں بریکنگ نیوز کی صورت میں انھیں سناتے ہوئے رپورٹر کے فرائض انجام دے رہی ہوتی ہوں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے وہ بہت کُڑھتے ہیں اور ملکی نقصان پہ دکھی و افسردہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں کوئی مثبت کام ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں یوں جیسے کوئی ذاتی خوشی حاصل ہوئی ہو۔

جب لوگ ان سے  قلمی حوالے سے میری قلمی کاوش کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا کوئی توصیفی جملہ کہتے ہیں تو مجھے ان کے چہرے پہ جو رونق امڈتی ہوئی دکھائی دیتی ہے وہ میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ پاپا نے  میری قلمی صلاحتیوں کا ذکر کسی کے سامنے اس انداز سے نہیں کیا جس سے کہیں شیخی بگھارنے کا احساس جاگتا ہوا محسوس ہو۔ کبھی کسی  کی لکھی تحریر پڑھ کر ایسا رویہ نہیں اپنایا کہ میری بیٹی اس سے زیادہ اچھا لکھتی ہے۔

ہمارے والد صاحب کے جس لاڈ اور پیار کا انداز بچپن میں میرے ساتھ دیکھنے کو ملتا تھا وہی اب ہمارے آنگن کے ننھےستارے یعنی اپنے نواسے اور ہمارے بھانجے محمد ولی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ مگر ہماری بہن (محمد ولی کی اماں) کا کہنا ہے کہ بچپن میں ہماری جن باتوں پہ روک ٹوک ہوا کرتی تھی اب وہ محمد ولی کی انھی باتوں سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہماری والدہ اس کا یہ جواب دیتی ہیں کہ جب تمہارا وقت آئے گا تب ان جذبات کی صحیح طور پہ سمجھ آئے گی۔

زندگی کا ایک موڑ ایسا بھی آتا ہے جہاں انسان اولاد کی کوتاہیوں سے نالاں ہو کر اپنے احسانات جتا دیتا ہے۔ میں نے کبھی انھیں ہمارےیہاں تک کہ دوسروں کے حق میں بھی کچھ اچھا کرنے کے بعد اس کا ذکر کرتے نہیں دیکھا۔ ہمارے والد صاحب نے جن حالات میں ہمارا ساتھ دیا ہے ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید اس کے لیے وہ سب کچھ کرنا ناممکن ہو جاتا۔ ہمارے استادِ محترم نے ایک مرتبہ ہم سے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمھارے باپ کا اللہ پر توکل  بہت مضبوط ہے۔ اس کا توکل پرندوں کے توکل جیسا ہے جو اپنے لیے ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے۔ انھیں کوئی طمع یا لالچ ہوتی  ہےنہ ہی وہ اپنے آنے والے کل سے خوف زدہ ہوتے ہیں  کیونکہ انھیں تو بس اللہ کی ذات پہ بھروسہ ہوتا ہے۔ اللہ بھی پھر اپنے انھی بندوں پر اپنی رحمت برساتا ہے۔

آج فادرز ڈے منایا جا رہا ہے۔ اپنے اپنے والد صاحبان کے لیے ہر جگہ الگ الگ انداز میں اظہارِ خیال کیا جا رہا ہے۔میرے لیے  اپنے والد صاحب کے علاوہ چند   پیاری ہستیوں کا حوالہ دینا  بہت ضروری ہے جن کے میں بہت زیادہ قریب رہی ہوں۔ ابا جی(دادا جان) اور ابی جان(نانا  جان) (اللہ دونوں کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے) میری زندگی کی دو ایسی پیاری ہستیاں ہیں جن سے خاندان اور خاندان سے باہر کے بھی تقریباً ہر عمر کے فرد نے  بے پناہ اور بے لوث شفقتیں سمیٹی ہیں۔

ابا جی بہت محبت کرنے والے اور چاک و چوبندشخص تھے۔میں ان کے متعلق ایک ہی بات سوچا کرتی ہوں کہ اگر وہ کوئی اور پیشہ اپناتے تو یقیناً وہ فوج کا ہی کوئی شعبہ ہوتا۔ ان  کے چلنے کا انداز کسی فوجی جوان کا سا تھا ۔تقریباً 90 سال کی عمر کے آخری حصے میں بھی وہ  بغیر سہارے کے چلا کرتے تھے۔ وہ گرمجوشی سے مصافحہ یا معانقہ کرتے تو اچھا خاصا تندرست و جوان آدمی بھی ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے یا ان کے گلے لگ کر حیران رہ جاتا۔ 

ابا جی پگڑی پہنا کرتے تھے جو ان  کی پہچان بن گئی تھی اور ان پہ بہت جچتی  بھی تھی۔ ہمارے خاندان میں ان کے علاوہ کسی نے بھی اس پگڑی کی روایت کو قائم نہیں رکھا۔ چچا زاد بھائی اسد کو بچپن میں بےحد شوق تھا۔ وہ ابا جی کی پگڑی کو سر پہ رکھے سارے گھر میں گھومتا بہت پیارا لگتا مگر لڑکپن کی جانب  قدم بڑھتے ہی پگڑی کا وہ شوق بھی معدوم ہو گیا۔

مجھے اپنے  پیارے دادا کی  یہ بات بہت پسند تھی کہ وہ محض اپنے خاندان یا اپنی اولاد کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں اور ان کی اولاد کے لیے بھی ہمیشہ دعا گو رہا کرتے تھے ۔ جب ہمارےاسکول کے دنوں میں امتحان یا  رزلٹ آؤٹ ہوتا تھا  تو وہ ہمارے علاوہ ہمارے ساتھی طالبعلموں کے حق میں بھی دعا کرتے تھے جنھیں وہ جانتے تک بھی نہ تھے۔ میں اس پہ حیرانی سے ان کو دیکھا کرتی تو ایک دن میری حیرانی بھانپ کر وہ مسکرائے اور  کہنے لگے کہ بیٹی! میں اگر اللہ سے یہ کہوں  کہ میرے بچے پاس کرا دے تو اس کا مطلب  تو یہ ہوا کہ اے اللہ ! دوسروں کے بچے پیچھے رہ جائیں۔دوسروں کے حق میں اچھا سوچو گے اور ان کے لیے دعا کرو گے تو اللہ آپ کے کام بھی سنوارتا ہے۔

ہمارے دادا کا تعلق جہلم سے تھا۔ جب ابا جی حیات تھے تو جہلم جانے کی خوشی اور جوش بھی الگ ہی ہوتا تھا۔ ان کے بعد تایا،چچا اور پھپھو محبت سے بلاتے بھی ہیں مگر ابا جی کی غیر موجودگی میں وہاں جانا کم از کم میرے لیے تو بہت مشکل ہے۔ میں وہاں جاؤں  گی تو گھر پہنچنے سے پہلےکئی منٹوں قبل ہی ان کے گھر کےباہر ہماری راہ دیکھتے  بے چینی و خوشی کے عالم میں ٹہلتے ابا جی کوکہیں دیکھ  نہیں پاؤں گی۔ اتنے بڑے گھر میں مین دروازے پر داخل ہوتے ہی مجھے ابا جی کی  وہ سائیکل بھی نظر نہیں آئے گی جس پہ وہ جہلم کے علاوہ دوسرے شہروں میں گھومنے کے شوق میں سفر کرتے تھے۔ ان کی بچوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ سائیکل ان کے جاننے والےلوگوں کے بچوں کے استعمال میں بھی رہی ہے۔  اس سائیکل کو چلانے والے  یا اس پہ اباجی کے ساتھ سواری کرنے والے جب اس سے جڑی یادوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے چہروں  پر ابھرتے خوشی کے تاثرات بہت انوکھے ہوتے ہیں۔

ابی جان کے گھرنمازِ فجر کی ادائیگی ، کلامِ پاک کی تلاوت  اور ذکر اذکار کے بعد صبح کا آغاز اخبار پڑھنے سے ہوا کرتا تھا۔ کبھی ان کے ہاں رات قیام کرنا ہوتا تو صبح جاگنے کے فوراً بعد ہی  ان کے گھر کی بالائی منزل سے نیچے اتر کے ہم ان کے کمرے میں آ کر انھیں سلام کیا کرتے جس کا جواب ہمیں بڑی محبت سے ملتا تھا۔

وہ بڑی خاموشی سے سب بچوں کا بغور مطالعہ کرتے تھے۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ یہ میری عادت تھی جب سو کر اٹھ کے ان کے پاس آتی تو اکثر اماں جان(نانی جان) اور ابی جان کے بستر میں گھس جاتی اور سلام دعا سے زیادہ ایک دم اٹھنے کے بعد کسی سے بھی کلام کرنا مجھے پسند نہیں تھا۔ میری والدہ اکثر ٹوکا کرتیں  کہ ابھی سو کر اٹھی ہو اور اب دوبارہ نہیں سونا ۔ابی جان  اور اماں جان میری اس عادت سے بہت محظوظ ہوتے تھے اور مما کو ٹوک دیتے تھے۔ نیند سے جاگنے کے تھوڑی دیر بعد جب میرے حواس کچھ  بحال ہوتے تو اماں جان مطالعے کے لیے اخبار مجھے تھما دیتیں۔ابی جان اور اماں جان کے ساتھ بیٹھ کر اخبار پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا جب وہ دونوں اخبار پڑھ رہے ہوتے تو میں بھی ان کے درمیان اخبار کھول کر بیٹھ جایا کرتی تھی۔

مجھے ابی جان کی بذلہ سنجی بہت پسند رہی ہے۔ان کی حسِ مزاح باکمال تھی۔ وہ ہم بچوں کے ساتھ ہمیشہ بچہ بن جایا کرتے تھے۔ ہم نے انھیں کبھی بھی بچوں سے چڑتے ، غصہ ہوتے ہوئے یا ان کو ڈانٹتے نہیں پایا۔ مجھے ان سے گپ شپ کرنا، کہانیاں سننا اور مزاحیہ واقعات  و قصوں پر ہنسنا ہنسانا بھی بہت پسند تھا۔

ہمارے ابی جان بہت سمجھدار، بردبارومدبر ، پڑھے لکھے دماغ اور سوچ کے مالک شخصیت تھے۔ ان کی جانب سے ملنے والے تحفے  عیدی یا کسی اور موقع پہ ملنے والے انعامات جو کیش کی صورت ہم سب کو دیے جاتے تھے  وہ ہمیں اس وقت بھی کبھی بغیر لفافوں کے نہیں ملے۔ مجھے سب سے زیادہ ان کاغذی لفافوں پہ لکھی ہوئی ان کی خوبصورت لکھائی اور ان کے چاہت میں ڈوبے اس پہ درج وہ الفاظ بہت یاد آتے ہیں۔ مجھے ان کے سلیقے اور قرینے کی مہک آج تک محسوس ہوتی ہے۔

ابی جان جیسی خودداری کم ہی کسی شخص میں ہوتی ہے۔ وہ میلوں پیدل چل کر سفر طے کرنے والے باہمت آدمی تھے۔ وہ جس جگہ کسی عہدے پہ فائز تھے وہاں کے اعلیٰ سطح کے لوگوں کا کہنا تھا کہ  باقی کام کرنے والوں کی طرح انھوں نے کبھی اپنی کسی حاجت کا ذکر تک نہیں کیا۔

ہماری استانی صاحبہ کہا کرتی تھیں کہ اولاد کو تو والدین کے بغیر شاید صبر آ ہی جاتا ہے لیکن والدین اولاد کی جدائی نہیں سہہ سکتے۔وہ ٹھیک ہی کہتی تھیں ۔ ہمارے تایا کی اچانک وفات کے بعدابا جی  اور خالہ جان کےایک دم دنیا سے چلے جانے کے بعد ابی جان  بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ابی جان پہلے کی طرح تندرست نہیں رہے بظاہر ٹھیک نظر آنے والے ابی جان سارا دن بستر پہ پڑے چپ چاپ کمرے کی چھت کو گھورتے رہتے تھے۔ان کے   گھر کے اندر داخل ہوتے ہی نگاہیں غیر ارادی طور پہ ان کے کمرے کی جانب اٹھتی ہیں۔ مجھے اماں جان (نانی جان) اور ابی جان کے بعد ان کے کمرے میں جانے سے عجیب سی وحشت گھیر لیتی ہے  اس لیے میرا اب ان کے ہاں کا رخ بہت ہی کم ہو کر رہ گیا ہے۔

ہم نے کبھی بھی ابا جی اور ابی جان کو اپنے احسانات گنواتے ،اپنی قربانیوں ، زندگی کی سختیوں کاذکر کرتے  یا کسی کے بھی خلاف حرفِ شکایت زبان پہ  لاتے نہیں سنا۔ ہم اللہ تعالیٰ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ اس نے  ہمیں ابا جی اور ابی جان جیسے پیارے لوگوں کا ساتھ نصیب کیا ۔ بلا شبہ ہم نے ان پیارے رشتوں کی جانب سے ہر غرض سے پاک اور بڑی خالص محبتیں پائی ہیں۔دعا ہے کہ جن کے والدین اس دنیا میں موجود نہیں ہیں اللہ تعالیٰ انھیں  جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے اور جن کے والدین حیات ہیں ان کا سایہ سب پر سلامت رکھے، آمین۔

از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟