پیارے لوگ



زندگی میں کچھ ایسے لوگوں کی فہرست بھی شامل ہے کہ جن کے سامنے ہمارا بچپن گزرا ہے۔ ان  سے کوئی خونی رشتہ تو نہیں ہے لیکن دل کا اس قدر گہرا ناطہ ضرور ہے  کہ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب  ہمارے گھر میں اس پیارے خاندان کے کسی ایک فرد کا بھی ذکر  نہ ہوا ہو۔ شہرِ جہلم میں ایک ایسا  ہی خاندان بستا ہے  جن سے ہمیں بے حد عقیدت اور  محبت ہے۔ 

کچھ دن پہلے اسی  گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون شخصیت جو مجھے بے حد پیاری اور میرے دل کے انتہائی قریب ہیں سے مدتوں بعد ملاقات ہوئی۔ وہ مجھ سے ہمیشہ بڑی بہنوں کی طرح محبت کرتی ہیں۔  بہت عرصے بعد ان کا جہلم سے لاہور آنا ہوا۔ ہم تہہ دل سے ان کے شکرگزار ہیں کہ لاہور میں  دورانِ قیام وہ اپنے پیارے سے تینوں بچوں کے ہمراہ ہم سے ملنے ہمارے ہاں تشریف لائیں اور ہمارے گھر کو رونق بخشی۔ 

دورِ حاضر میں فاصلوں کو کم کرنے میں سوشل میڈیا کا بھی بہت کردار ہے۔  پیاری باجی سے اکثر سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ رہتا ہے تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے فاصلوں کو بہت حد تک سمیٹ دیا ہے۔  مگر اس کے باوجود ایک مدت بعد پیاری  باجی سے  روبرو ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں مجھے کہیں یہ احساس نہیں جاگا کہ بیچ میں اتنے سال کاایک خاموش عرصہ بھی آکر گزر چکا ہے۔

ہم اس دن اتنے سالوں بعد ملے تو بہت دیر تک پرانے وقت کو یاد کرتے رہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو وہ لوگ اپنی فیملی کے ساتھ لاہور آتے تھے۔ ان کی لاہور آمد کا سنتے ہی ہم بہت پُرجوش ہو جاتے تھے۔ وہ جب بھی لاہور آتے تو ہمارے گھر ہی قیام کرتے تھے۔ 

پیاری باجی  کے والدصاحب ہمارے لیے بہت محترم اورسب سے محبت کرنے والی شخصیت ہیں۔ان کی والدہ  بہت زندہ دل خاتون ہیں ۔ ان سے پہلی بار ملنے والے کو   کبھی یہ شائبہ نہیں ہوتا کہ یہ  ان سے پہلی ملاقات ہے۔ پیاری باجی اور ان کے دونوں بہن بھائی سے بھی ہم تینوں بہن بھائی کو چھوٹے بہن بھائوہں کی مانند  ہی محبت ملی ہے۔ 

سنہری دنوں کی بہت سی خوشگوار باتیں یادوں کے کینوس پر رقم ہیں۔  وہ لوگ  لاہور آتے تو ہمارے ساتھ اپنے لیے چند ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے مارکیٹ کا رخ کرتے۔ ان کے ساتھ شاپنگ کا بھی الگ ہی مزہ ہوتا تھا کہ مجھ سی شاپنگ سے میلوں دور بھاگنے والی لڑکی بھی اس وقت ان کے ساتھ کو خوب انجوائے کرتی۔  مجھے  پیاری باجی، آنٹی اور چھوٹی باجی(پیاری باجی کی والدہ اور بہن) کی یہ بات بہت دلچسپ لگتی جو آج تک یاد ہے کہ دورانِ خریداری انھیں ہمارا احساس بھی  ہوتا تھا کہ وہ لوگ اپنی خریداری میں محو ہو کر ہمیں یکسر ہی فراموش نہیں کر بیٹھتی تھیں۔  یعنی وہ اکثر ہی اپنے کام چھوڑ کر ہماری شاپنگ میں مدد کو پیش پیش ہوتیں کہ یہ چیز بہتر لگ رہی ہے یا فلاں چیز آرام دہ نہیں ہے  تو اس کے متبادل فلاں چیز دیکھ لیں وغیرہ۔

مجھے یاد ہے  ایک مرتبہ ان کی لاہور آمد پہ کسی دن ہم نے ہوٹلنگ کا پلان بنایا تو کھانے کے بعد لاہور کی ایک مشہور قلفی کی دکان پر بھی چلے گئے۔ مجھے اب وہ بات تو ٹھیک سے یاد نہیں ہے مگر اتنا یاد ہے کہ  ہم لوگ اپنی اپنی قلفیاں ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے جس پر آنٹی (پیاری باجی کی والدہ) نے کوئی ہنسانے والی بات کہی تو  ہم سب کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔  اس کے بعد ہم سب گھر آ کر بھی کتنی دیر اس بات سے محظوظ ہوتے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔

میرے والدین کسی سے بھی میری تحریروں کا ذکر بہت کم ہی کرتے ہیں کہ  اگلا بندہ کہیں  اسے تفاخر، کِبر یا شیخی کا احساس نہ سمجھ لے۔ اگر کوئی ان سے میرے لیے کوئی توصیفی جملہ یا بات کہہ دے تو عاجزی و انکساری کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اب  چونکہ پیاری باجی کی سب فیملی اور ہمارے درمیان  محبت کے الگ ہی انداز ہیں سو اسی لیے اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے  جس دن  وہ ہمارے گھر تشریف لائیں تو  ہمارے والد صاحب نے مجھے چھیڑنے کی غرض سے ازراہِ مذاق پیاری باجی سے پوچھا کہ علینہ کیسا لکھتی ہے؟ اچھا لکھتی ہے کہ بس کام چلانے والی بات ہی ہے تحریروں میں؟ 

وہ ہنس دیں اور کہا کہ اچھا لکھتی ہے۔  انھوں نے مزید یہ کہا کہ مجھے تمہاری تحریر پڑھ کے یوں لگتا ہے جیسے بہت جذباتی ہو کر لکھی گئی ہے جو کہ اچھی بات ہے۔

دورانِ گفتگو مجھے ان  کی بے ساختگی بہت بھاتی ہے جس کا اظہار  بھی میں نے ان سے کیا تھا۔ اس دن ان کا ہمارے ہاں آنا ہوا تو پیاری  باجی بڑی محبت سے ہم سب سے ملیں۔   اتنے سالوں بعد مجھے دیکھ کر کہا کہ مجھے تو وہی راؤنڈ فیس والی بالکل گول مٹول سی علینہ یاد تھی مگر اب تم بالکل چینج ہو کر اسمارٹ ہو گئی ہو۔ انھوں نے میری تحریروں کا بھی  ذکر کیا کہ میں تمہاری  تحریریں پڑھتی رہتی ہوں۔  پھر ہنستے ہوئے مجھ سے کہنے لگیں کہ اب ہم جو یہاں آئے ہیں تو کیا ہماری آمد پر لکھو گی؟  میں نے کہا  کہ جی بالکل ضرور لکھوں گی ان شاء اللہ۔ تو انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے بے شک لکھنا مگر ہمارے نام نہ لکھنا۔ ہمارے والد صاحب ان کی اس بات سے بہت خوش ہوئے کہ  پیاری باجی کا یہ شہرت سے پرہیز کاہی ایک  اظہار تھا۔ان کی خصوصی خواہش کی بنا پر ہی میں نے ان کے نام اور شناخت لکھنے سے گریز کیا ہے۔

پیاری باجی اور ان کے بہن بھائیوں کی شادیوں کے بعد  سب کی مصروفیات اور ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے تو اسی وجہ سے اب ان کا لاہور آنا بھی  پہلے کی طرح نہیں رہا بلکہ کم ہو گیا ہے۔ لیکن آج بھی وہ گزرے لمحات ہمارے ذہنوں میں تر و تازہ ہیں اور  بلاشبہ جو ہمارےبچپن  کی پرانی یادیں ان سب کے ساتھ سجیں ہیں وہ بہت پیاری  اور حسین ہیں۔ اتنے عرصے بعد اب ہمارا ملنا ہوا تو ان کے ساتھ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ دعا ہے کہ اللہ پیاری باجی اور ان کی تمام فیملی کو خوش  و خرم اور آباد رکھے،آمین۔

از قلم، علینہ ظفر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

سالگرہ مبارک

شاپر کے بعد اب بناسپتی گھی بھی BANNED مگر کیوں ؟