اشاعتیں

اکتوبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

گنج بخش فیض عالم

تصویر
تحریر : راحیلہ کوثر حضرت داتا گنج بخش کا شمار بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کرنے والوں میں سر فہرست آتا ہے ۔ آپ کی تمام ذندگی اسلام اور انسانیت کی خدمت کی بہترین مثال ہے۔آپ کی ولادت افغانستان کے معروف شہر غزنوی میں ہوئی۔آپ کا اسم گرامی ”علی“ اور کنیت ”ابو الحسن“ جبکہ لقب ”داتا گنج بخش“ ہے۔آپ نے چار سار سال کی عمر میں اپنے والد عثمان بن علی سے قر آن پاک کی تعلیم لینا شروع کی اور اپنی  غیر معمولی ذہانت کی بدولت جلد تعلیم مکمل کر لی۔عربی ، فارسی اور دیگر  علوم حاصل کرنے کے لئیے سفر بھی اختیار کیا ۔ شیخ ابو قاسم گرگانی کا شمار آپ کے صف اول کے اساتزہ میں ہوتا ہے ۔  آپ حضرت شیخ ابو الفضل ختلی کے دست مبارک سے مشرف بہ بعیت ہوئے جو اس دورکےمتقی بزرگ اور قرآن و حدیث کے عالم تھے۔ آپ اپنی کتاب ”کشف المحجوب “میں اپنے مرشد کے ساتھ کیے ایک سفر کا احوال کچھ یوں بئیان کرتے ہیں  کہ” ایک دن میں اپنے پیر و مرشد کے ساتھ بیت الجن سے دمشق کا سفر کر رہا تھا کہ راستے میں بارش ہو گئی جس کی وجہ سے بہت ذیادہ کیچڑ ہو گیا ہم بہت مشکل سے چل رہے تھے کہ اچانک میری نظر پیرو مرشد ...

ایک اور لنگر خانہ

تصویر
  تحریر: راحیلہ کوثر   اس بات میں کوئی دوہری رائے نہیں کہ بھوکے مسکین یا یتیم کو کھانا کھلانا اسلام کی عین تعلیمات میں سے ہے حضور صلی علیہ وسلم نے فرمایا ”بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا مغفرت کو واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے“۔اس کے علاوہ بھوکے افراد کو کھانا کھلانا انبیا کی سنت ہے ۔ اولیا کرام اور صوفیہ کرام کے لنگر خانوں کی بنیاد انہیں احادیث پر ہے۔ لنگر خانہ ہے کیا ؟ لنگر خانہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں فقرا میں کھانا تقسیم ہوتا ہے ۔عہد مغلیہ میں بھی لنگر خانوں کا رواج رہا ہے تاریخ نے اس کی کوئی خاص تشہیر نہیں کی بس کہیں کوئی معمولی تزکرہ ہی ملتا ہے شائد عوام  آسودہ حال تھی یا تاریخ دان اس کو حکام کا ایک فریضہ ہی گردانتے تھے۔ البتہ مسافر خانوں کے شواہد مغلیہ عمارات اور  تاریخ دونوں میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ بات ہو رہی ہے لنگر خانوں کی  تاریخ دکن سلسلہ آصفیہ اور عہد مغلیہ کے ہندو امرائے سلطنت ٥٧٠٠ میں محمد شاہ عادل ، بیرم خان خاناں اور عبدالرحیم خان خاناں کے لنگر خانوں اور دریا دلی کا کچھ یوں تزکرہ ملتا ہے۔ ”محمد عادل شاہ کے دور حکومت میں مساجد میں لنگر...

ماموں زاد بھائی فیضان مجاہد عرف فیضی

تصویر
بچپن کا دور بھی کیا دور ہوتا ہے، معصومیت اور کھٹی میٹھی یادوں سے پُر۔ کل میں اور سی بی (بھائی طلحہ) اپنے اور ہمارےننھیالی کزنز کے مشترکہ بِتائے جانے والے بچپن کےکچھ لمحات یاد کر کے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ان میں سے ہی ایک واقعہ اس تحریر میں شیئر کر رہی ہوں جو ہماری اتنی زیادہ کم عمری کا ہے کہ شاید ہمارے ننھیالی کزنز گروپ کے کسی ممبر کو سوائے ہم دونوں بہن بھائی کے یاد بھی نہ ہو۔ہم نے تقریباً بہت سے کھیل ایک ساتھ کھیلے ہیں جن میں چند آرمی، پولیس اور ائر فورس کے کھیل بھی شامل تھے۔ ایک بار ہم ائر فورس کا کھیل کھیل رہے تھےجس  میں  جنگ کا ماحول ہے،دشمن نے حملہ کر دیا ہے اور ہمارے فوجی جوان دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے ان کی سرحدیں پار کرتے ہوئے فضائی حدود میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس  دوران ہمارا ماموں زاد بھائی  فیضان عرف فیضی پائلٹ بنا اپنے فرضی جیٹ میں بیٹھا اسے اُڑتے ہوئےجیٹ سمیت ایک دم ہچکولے کھانے لگتا ہے اور چِلانے لگتا ہے ، "اوئی امی میرا جہاز! اوئی امی میں گیا! میرا جہاز!" ساتھ بیٹھا پُرسکون انداز میں اپنا الگ سے جیٹ چلاتا ہوا پائلٹ سی بی اچانک اپنے ساتھی پائلٹ فیضی کی چ...

خاندانی بزرگوں کا دن

تصویر
آج گوگل کا ویب پیج کھولا تو وہاں ڈوڈل دیکھ کر میں نےاس پر کلک کیا۔ کلک کرتے ہی معلوم ہوا کہ آج "گرینڈ پیرنٹس ڈے"ہے،  یعنی دادادادی اور نانانانی کا دن منایا جا رہا ہے۔ یہ بات جان کر خوبصورت پل یاد آتے ہی چہرے پربے ساختہ مسکراہٹ بکھر گئی اور آنکھیں نم بھی ہو گئیں۔ابا جی(دادا جان)، دادی جان اور ابی جان (ناناجان)، اماں جان (نانی جان) اس قدر شدت سے یاد آئے جسے بیان کرنا شاید میرے لیے مشکل ہے۔اپنے خاندان کے بزرگوں سے جڑی  ان کے اور میرے درمیان بہت سی ایسی باتیں، واقعات اور گفتگو  ہیں جنہیں کوئی دوست یا خاندان کا کوئی دوسرا فرد بھی  قطعی نہیں جانتا۔ شاید لوگوں کی لاعلمی کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دوسروں نے میرے اور میرے بزرگوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت پر دھیان نہیں دیا اور نہ ہی میں نے کبھی ہمارے آپس کے رشتے کو کسی اور کے سامنے بیان کیا۔میں کوشش کروں گی کہ آج کے دن کے حوالے سے یہ تحریر لکھ کر اپنے اِن پیارے بزرگوں کے نام کروں۔ میں بہت چھوٹی تھی جب میری دادی کا انتقال ہوا، اس لیے میرے ذہن میں ان کی بس ہلکی ہلکی سی جھلک ہی موجود ہے۔ مگر میری والدہ بتاتی ہیں کہ وہ مجھ سے...

8اکتوبر2005زلزلہ تھا کہ قیامت گزری

تصویر
تحریر : راحیلہ کوثر 8 اکتوبر 2005 کوئی زلزلہ تھا کہ   اس روز اہل کشمیر پر قیامت ٹوٹی پڑے رہے جنازے لاکھوں روئے زمیں پر کہ دفنانے والوں پر بھی قیامت ٹوٹی بے سرو ساماں کھلے آسماں تلے وہ جینا  کہ جینے والوں پہ پھر ہر شب قیامت ٹوٹی    8اکتوبر 2005 بروذ ہفتہ ، 3رمضان المبارک،1426 ہجری پاکستانی سٹینڈرڈ ٹائم08:50:39  کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات  اور آذاد کشمیر پر پاکستان کی تاریخ کا بد ترین   زلزلہ آیا جس کی شدت 7.6تھی۔ٹی۔وی اسکرین پر ہر جگہ اسلام آباد ، F/10 میں واقع مارگلہ ٹاور کی تباہ ہونے والی منازل اور ریسکیو کے  منظر  ہی خبرں کا کل مرکز تھے۔اس وقت تک پاکستان کی عوام ان کے دکھ میں ہی آبدیدہ تھی کسی کو بھی علم نہ تھا کہ دکھوں کے پہاڑ  اسلام آباد سے آگے مظفر آباد ،مانسہرا ، بالاکوٹ، راولاکوٹ، پٹگراں اور باغ میں کس شدت سے ٹوٹ چکے ہیں۔  تا ہم اگلےروز ٹی ۔وی پر صرف کشمیر کی تباہ حالی زمیں بوس گھر اور غم سے نڈھال بے سروسامان لوگوں کے احوال کا منظر نامہ درج تھا۔ میرے والد صاحب اس وقت تک کشمیر پہنچ چکے تھے کیون...

لمبی کہانی سننے سے زلزلہ آجاتا ہے

تصویر
تحریر: راحیلہ کوثر یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور میں سکول کی طلبہ تھی۔مجھے اور میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو اس روذ اتفاق سے بخار تھا ۔میرا چھوٹا بھائی مبشر اس وقت سات آٹھ سال کا تھااور اسے مجھ سے کہانیاں سننے کا پہت شوق تھا۔دونوں چھوٹوں کو بیٹھے بیٹھے ملک شیک پینے کی سوجی اور ان کی ضد کے آگے میں نے اپنی ناساذ طبیعیت کو نظر انداذ کیا ،گھر میں چونکہ کیلے دستیاب تھے تو کیلوں کا ملک شیک بنا کر ان کے  حضور پیش کر دیا۔                       پھر مبشر صاحب نے ایک اور فرمائش کر دی کہ مجھے کہانی سننا ہے۔میں نے بھی اسے کہا نی سنا دی مگر وہ موصوف شیک کی سپ لیتے اور کہتے کہ یہ چھوٹی کہانی ہےلمبی کہانی سناو۔میں نے بھی دو چار کہانیوں کی آمیزش کر کے اس کہانی کو طول بخشا۔مگر مبشر صاحب بہت آرام سے کہ دیتے کہ ابھی بھی کہانی چھوٹی ہے اور بھی لمبی کہانی سناو۔اسکا شیک اگرچہ ختم ہو چکا تھا مگر لمبی کہانی کی چاہ تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔مجھے جو جو کہانی بھی اب تک یاد تھی میں نے اس کہانی میں زم کرنا شروع کر دی اور جی جان لگا کر اس کہ...