اشاعتیں

ستمبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

عمران خان صاحب کی تقریر اور منفی رحجانات

تصویر
تحریر: راحیلہ کوثر میں اس موضوع پر رات میں ہی لکھ سکتی تھی کیونکہ میرے نزدیک پرائم منسٹر عمران خان کی تقریر ایک مکمل تقریر اور نوے فیصد پاکستانیوں کے دل کے جذبات اور ذباں کے الفاظ تھے۔مگر میں ان دس فیصد  لوگوں کا موقف بھی جاننے کو بےتاب تھی جن پر اس تقریر کا کوئ اثر  نہیں ہوا یا وہ جو اس کو محض لفظوں کا جھانسہ قرار  دیتے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ لوگ ہمارے اور آپ کے درمیان ہی پائے جاتے ہیں ۔ ان کی اصلاح میں اپنے بچپن کے اس واقع سے کرنا چاہوں گی کیونکہ میری اصلاح تو اسی سے ہی ہوئی تھی۔ میں جب چھوٹی تھی تو ہمارے محلے میں ایک باجی تھی جن کا نام میں اخلاقً درج نہیں کر رہی وہ ہمیں بہت اچھی اچھی باتیں بتاتی تھیں اور نیکی کی ترغیب کرتی تھیں ۔اک روز میں نے والد صاحب سے زکر کیا کہ  فلاں باجی ہمیں تو بہت نیکی کا درس دیتیں ہیں مگر  خود وہ کام نہیں کرتیں تو والد صاحب نے ٹوکا اور کہا کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہ رہا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہ رہا ہے دلوں کے حال خدا جانتا ہے مگر دوسرے کیلیے اچھی سوچ رکھنا دوسرے کو برائی اور اچھائی ،سچ اور جھوٹ کا فرق بتانا بھی نیکی ہی ہے۔...

صراحی ، تحفہ منجانب صحرائی

تصویر
اردو افسانہ نگار طارق بلوچ صحرائی کو افسانہ نگاری کی دنیا میں بہت اچھے اور عمدہ افسانوں کے خالق کے طور پر جانا جاتا ہے۔میں نے بہت سے رسائل میں شائع ہونے والے کچھ باقاعدہ سلسلوں میں ان کی کتابوں سے لیے گئےچند مختلف اقتباس کو پڑھا ہےجنہیں قارئین انتخابات کے طور پر بھیجتے ہیں۔   اس کے علاوہ سوشل میڈیا پہ لوگوں کی بہت سی تعداد بھی ان کی تحریروں سے اخذ شدہ   اقتباسات کو شیئر کر رہے ہوتے ہیں۔ میں جب بھی طارق صحرائی صاحب کی کوئی تحریر پڑھتی ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہوں نے ایک طویل عرصہ بانو آپا اور اشفاق احمد صاحب کی شخصیات اور تحریروں   میں رہ کر گزارا ہے۔میرے والد اور طارق بلوچ صحرائی صاحب کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ ہے، میری دعا ہے کہ اللہ اس محبت کو ہمیشہ قائم رکھے، آمین۔صحرائی صاحب کے بیگم اور بچوں سےجب پہلی مرتبہ ہماری   ملاقات   ہوئی تو وہ سب بھی بہت محبت سے ملے۔ طارق صحرائی صاحب جب بھی ملتے ہیں میری تحریروں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ موبائل گیلری میں آج پرانی تصویریں کھنگالتے ہوئے ایک تصویر نظر سے گزری تو طارق بلوچ صحرائی صاحب سے ہونے والی ا...

انٹرنیٹ ایکسپلورل صارفین ہیکرز کیلیے آسان ہدف

تصویر
ہم سب انٹرنیٹ استعمال کرنے کیلئےبہت سےویب  براوزرز کا استعمال کرتے ہیں ۔مگر حال ہی میں ایک مرتبہ پھر سے مائیکرو سافٹ نے اپنے  معروف ویب براوزر”  انٹرنیٹ ایسپلورل “کو ہیکرز کیلیے آسان ہدف قرار دیتے ہوے ان انسٹا ل کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔اس سے قبل رواں سال فروری میں بھی مائیکروسافٹ کی جانب سے ہدایات جاری کی گئیں تھیں کہ صارفین اس ویب براوزر کو ڈیفالٹ براوزر کے طور پر استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ ان ہدایات کو جاری کرنے کا مقصد صارفین کو ممکنہ نقصانات سے بچانا ہے۔  چونکہ اپریل میں ہی صارفین کو ایک بار پھر سے آگاہ کیا گیا تھا کہ اس ویب براوزر کی کمپیوٹر میں موجودگی بھی صارفین کےلیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔جس کی وضاحت کرتے ہوے آگاہ کیا گیا کہ ہیکر اس براوزر کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر با آسانی آپکا ڈیٹادیکھ سکتا ہے ، بدل سکتا ہے اور  چرا بھی سکتا ہے۔حتی کہ مکمل یوزرز رائٹس والے اکاونٹس بنا سکتا ہے۔ ماہیکرو سافٹ کی جانب سے دئ گئ ہدایات کے مطابق اس براوزر کی سیکیورٹی کی کمزوری میموری کرپٹ کر سکتی ہے.اس کی سیکیورٹی کمزور ہونے کے سبب ہیکر با آسانی اس کا کوڈ ...

چھپڑ کے مینڈک اور کھابہ گاہیں

تصویر
تحریر: راحیلہ کوثر  لاہور اور لا ہوریوں کا کھابوں سے چولی دامن کا تعلق ہے۔ بات جب مرچ مصالحہ اور چکن ،مٹن یا بیف کی ہو تو لاہوری نہیں ہاتھ کھینچتے  اور چڑوں کے تو سب کےسب ہی شیدائ ہیں۔ایک دور تھا کہ دیسی مرغ کی ہانڈی کھا کر ہی دل خوش ہو جاتا تھا۔ آلو گوشت اور گوشت پلاو اور کباب گھر میں ہی سب بنا کر کھاتے  تھے۔ نہ تب شوادمے تھے نہ ذنگر ونگر، بہت حد تھی بھی تو شامی برگر  تک ہی رسائی تھی۔گھروں سے باہر جا کر کھانا کھانے کو ذیادہ تر گھرانوں میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا روایات بھی بدلتی گئیں ۔مہینے میں دو سے تین بار باہر بمع اہل  و ایال جا کر کھانا ایک طرح کا فیشن ہی بن گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نت نئے کھابے مارکیٹ میں آنے لگے چپے چپے پر ہوٹل کھلنے لگے۔اب ہرطعتیل کا باہر سے کھائے پئیے بنا مکمل ہونے کا تصور ہی ممکن نہ رہا۔اب مقابلہ باذی کا آغاذ ہوا کہ کس کس ہربہ سے گاہک کو گھیرا جائے۔لا تعداد قومی اور بین الاقوامی پکوان متعارف اور مقبول ہوتے گئے۔ جن میں سر فہرست برگر اور شوارما ہیں۔ جیسے جیسے یہ کھابےعوام الناس میں مقبول ہوتے گئے...

بے ایمان ثالثی

تصویر
تحریر: راحیلہ کوثر کشمیر میں کرفیو کو 50روز ہو گئے ۔  پورے عالم میں کم ازکم کرفیوں ہی ختم کروانے کی پاکستانی اپیل کو سب نے سنی ان سنی کر دیا۔ بھارت  ان 50 دنوں میں جو جو مظالم کشمیریوں پر ڈھا چکا ہے  وہ  کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،انہیں  نہ صرف ادویات اور اشیا خورد و نوش سے محروم کیے رکھا ہے بلکہ ان پر تشدد اور بین الاقوامی بین یافتہ اسلحہ اور بموں کے استعمال سے بھی بھارت باز نہیں آ رہا۔آئے روز  نا صرف بھارت   پاکستان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کرتا ہےبلکہ کبھی کلبھوشن کبھی افغانستان کبھی الطاف حسین جیسے بکاو اور شر پسند افراد اورعناصر کو استعمال کر کے پاکستان کے معصوم شہریوں کا قتل عام کرواتا ہے۔پہلے پاکستان میں اپنے ملک کے دہشت گردوں کے ذریعے دہشت گردی کا بازار گرم کرواتا ہے۔ پھر دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ملک  کہتاپھرتا  ہے ۔جب اس سے بھی تسکین نہیں ملتی تو  اپنی فلموں میں پاکستان کے خلاف کھلم کھلا پروپیگنڈا کر کے دنیا میں دہشت گرد بنا کر پیش کر کے پاکستان کی  اور پاکستانیوں کی منفی منظر کشی کرتا پھرتا ہے۔یہ بھی اچھا  ...

جلد کی حفاظت

تصویر
گرمیوں میں چہرے کی حفاظت کے لیے  ایک سادہ سا لیکن بہت آزمودہ فیس ماسک سب قارئین کے ساتھ شیئر کرنے جارہی ہوں۔ اس کو آسانی سے گھر پہ ہی تیار کیا جا سکتا ہے۔  اس فیس ماسک  کااستعمال  جلد میں نکھار لا کر اسے تروتازہ بناتا ہے۔ فیس ماسک بنانے کا طریقہ اور استعمال: 1۔دو چمچ بیسن میں ایک چوتھائی چمچ ہلدی اور چند قطرے لیموں کا رس شامل کریں ۔ 2۔اب اس میں عرقِ گلاب ملا کر ایک پیسٹ بنا لیں۔ 3۔اس پیسٹ کو چہرے پہ لگا کر 15سے 20منٹ تک خشک ہونے دیں اور بعد میں چہرہ دھو لیں۔ یہ فیس پیک چہرے کے علاوہ گردن،  ہاتھ اور پاؤں کی صفائی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چکنی جلد والے لوگوں کے لیے یہ ماسک بہت فائدہ مند ہے۔  خشک جلد والے افراد عرقِ گلاب کی جگہ اس میں بالائی یا دودھ کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔اس میں شامل کیے جانے والے اجزاء سے کسی بھی قسم کی الرجی ہو تو اس  پیک کے استعمال سے گریز کریں۔ از قلم، علینہ ظفر

سالگرہ مبارک

تصویر
آج پیاری بہن ڈاکٹر مہوش اعجاز کی سالگرہ ہے۔مہوش کی سالگرہ کے موقع پر  تحریر کا آغاز کرتے ہوئے اس کے بھائی شفیق علی  کی بات یاد آئی جسے سب علی کہہ کے بلاتے ہیں۔ علی نے ایک مرتبہ میرا لکھا کوئی آرٹیکل پڑھ کر اپنا حوالہ دیتے ہوئے مجھ سے کہا کہ علینہ باجی کبھی اپنے یہ والے بہن بھائیوں کے بارے میں بھی کچھ لکھ لیں۔  تب میں نے اس تحریر کو سرپرائز رکھنے کی غرض سے اسے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جب موقع آیا تو ضرور لکھوں گی، ابھی بے موقع لکھنا مناسب نہیں ہے۔ تب میں نے یہ سچ بھی کہا تھا۔مہوش کو ہم اس کے اصلی نام سے کم اور پیار کے نام  چندا سےمخاطب زیادہ کرتے ہیں۔ چندا اور میری فیملیز کو ایک ساتھ رہتے ہوئے سات آٹھ سال کا عرصہ کیسےگزر گیا پتا بھی نہیں چلا۔ انسان کی زندگی میں کچھ لوگوں سے دل کے تار  کچھ اس طرح ملے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یوں لگتا ہے جیسے ان سے آنکھ کھولتے ہی  دل کا رشتہ قائم ہو گیا تھا۔تو اس خاندان سے بھی ہمارا وہی دل کا رشتہ  استوارہے۔ چندا کا ایم بی بی ایس اور میرا ایم ایس صحافت  تقریباً ایک ساتھ ہی مکمل ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے میں گھر کے نیچ...

Miracle Mike سر کٹا مرغا ،جو 18ہفتے معجزاتی طور پر ذندہ رہا

تصویر
لکھاری :  راحیلہ کوثر  خدا تعالی کی ذات اقدس بنی نوع انسان کو ایسے ایسے مناظر دیکھاتی ہے کہ آنکھ دنگ رہ جاتی ہے۔ایسا ہی ایک منظر دنیا نے 10 ستمبر 1945میں  دیکھا۔   یہ صبح بھی عام صبح جیسی ہی تھی جب امریکہ کے علاقے Fruita Colorado کے معمولی سے مرغی فارم کے مالک Lloyed Olsen نے حسب معمول مرغ کاٹنے شروع کئیے ۔اسے روذ لگ بھگ 50 سے 60مرغ کا گوشت قریبی علاقوں میں بیچنا ہوتا تھا۔ آلسن مرغ کاٹتا جاتا اور ایک مخصوص ڈبہ میں پھینکتا جاتا ۔ اسی اثنا میں ایک مرغا جسکا سر دھڑ سے جدا کر کے آلسن نے مرنے کے لئیے تڑپتا ھوا چھوڑا تھا اچانک ڈبے سے نکل کر بھاگنےلگا۔آلسن نے سوچا کہ ایسا مرغ کے گرم خون کی وجہ سے ہے۔چنانچہ اس نے اسے مرنے کے لئیے چھوڑ دیا۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا  اگلی صبح یہ دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے کہ مرغا اس قدرمطمعین بیٹھا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔ چناچہ آلسن نے اس معجزاتی طور پر بچ جانے والے مرغ کی دیکھ بھال شروع کر دی وہ اسے نہایت احتیاط سے آئی ڈراپر کی مدد سے کھانا کھلاتا۔ اس نے  اس سر کٹے  مرغ کا نام Miracle Mike رکھا ۔و...

آٹو گراف سے جڑی ایک یاد

تصویر
آٹو گراف سے جڑی ایک یاد کل جب میں اپنی کچھ کتابوں کو الماری میں ترتیب سے رکھ رہی تھی تو  چند کتابیں کھنگالتے ہوئےمجھے وہاں سے میری  ایک آٹو گراف ڈائری مل گئی جس میں نامورشخصیات کے آٹوگرافس موجود ہیں۔میں نے اس ڈائری کا پہلا صفحہ کھولا تو اس پر میرے بہت پسندیدہ شاعروں میں سے ایک مشہور شاعر امجد اسلام امجد کا آٹوگراف درج تھا۔ یہ وہ  آٹوگراف ہے جو میں نے زمانہ طالبعلمی میں امجد صاحب سےتب حاصل کیا تھا،جب ہمارے کالج میں منعقد کردہ اردو مشاعرے کے ایک مقابلے میں دیگر شخصیات کے علاوہ وہ بھی بطورمہمانِ خصوصی شریک ہوئےتھے۔ اس وقت کالج انتظامیہ نے مہمانِ خصوصی کےنام کا اعلان پہلے سے نہیں کر رکھا تھا ، اس لئے بہت سی طالبات یہ نہیں جانتی تھیں کہ امجد اسلام امجد اس دن کالج میں منعقد کردہ مشاعرے کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔امجد صاحب کو اچانک وہاں دیکھ کر ایک خوشگوار احساس غالب آ  گیا۔آج یہ آٹوگراف دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آگیا جب میں نے امجد صاحب سے یہ آٹوگراف لیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب میں "حمایتِ اسلام خواتین کالج " میں  بی اے تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی۔ مشاعر...

نمرتا کماری کی خودکشی وجہ اینٹی سٹوڈنٹ نظام تعلیم یا کچھ اور

تصویر
نومبر ٢٠١٩ میں BNU کی فائن آرٹ کی ٥ سمسٹر کی طلبہ دوشان فرخ کی خودکشی تعلیمی دباو بتائی گئی۔ اسی دباو کی وجہ سے طلبہ میں خودکشی کا بڑھتا رحجان خطرے کی علامت ہے۔                    اب ١٢  ستمبر۔ ٢٠١٩ کو BDS کالج کے ہاسٹل نمبر ٣ ”Chandka medical collage” سے نمرتا کماری کی لاش ملی۔نمرتا میڈیکل کی ہی طلبہ تھی ۔ادارہ اس کوطلبہ کی خودکشی بتا رہاہے جبکہ لواحقین اسے قتل کی واردات کہتے ہیں۔ ویسے بھی خودکشی بھی ایک طرح کا قتل ہی  تو ہے جو مرنے والے پر ذہنی تشدد کر کر کے کیا جاتاہے ۔باہر حال بغیر تحقیق کے قبل اذوقت کی قیاس ارائیوں کی بجائے معمہ کے حل ہونے یا مزید شواہد ملنے کے بعد ہی رائے کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے آیا کہ یہ خودکشی ہے یا قتل۔ باہرحال یہ افسوس کا مقام ہے ک ہمارے تعلیمی ادارے  طلبہ کو جینا سیکھانا تو دور جینے کی اہمیت ہی سیکھانے سے قاصر ہیں۔  والدین کو بھی چاہیے کہ  بچوں کے ساتھ دوستانا ماحول بنا کررکھیں تاکہ وہ ہر طرح کی بات آپ سے کر سکیں اور کسی بھی قسم کے ذہنی دباو میں آ کر خودسوذی جی...

تعارف

تصویر
بچپن میں ایک ادھیڑ عمر اخبار فروش بابا جی اپنی سائیکل لیے ہمارے محلے کے مختلف گھروں میں اخبار پہنچانے آیا کرتے تھے۔گرمی کی چھٹیوں میں ہماری والدہ ان سے بچوں کے مختلف رسائل خرید کر رکھ لیا کرتی تھیں اور ہوم ورک مکمل ہونے پر فارغ وقت میں ہمیں پڑھنے کو دیتی تھیں ۔لِونگ روم میں ہم تینوں بہن بھائی کو بٹھا کر وہ رسالےہمارے ہاتھ میں تھما دیتیں اور پھر ہمیں باری باری کسی کہانی کو بلند آواز میں پڑھنے کو کہتیں۔مطالعہ کی عادت مجھے وہیں سے ہوئی۔لہذا مطالعہ میں دلچسپی اور میرے ادبی رجحان کا سہرا میری والدہ کو جاتا ہے۔لکھنے کا شوق بھی مجھے اپنی والدہ سے وراثت میں ملا ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ انہیں رات کے وقت لکھنے کی عادت تھی ۔ لکھتے لکھتے جب رات کافی بیت جاتی تو میرے نانا جان یعنی ہماری والدہ کے والد صاحب کی کبھی رات کے کسی پہر آنکھ کھلتی تو ہماری والدہ کے کمرے میں کم روشنی والے بلب جلنے کا احساس ہوتا۔ وہ اٹھ کر ان کے پاس کمرے میں آتے اور اتنی کم روشنی میں لکھنے پر بینائی متاثر ہونےکے نقصانات بتا کر دن کے اجالے میں لکھنے پڑھنے کی تاکید کرتے۔ میں نے سُن رکھا ہے کہ تاریخ خود کو ضرور دہراتی ہے اور ہ...

کچرےپر سیاست

تصویر
             کچرے پر سیاست        کراچی جو شہر قائد یا روشنیوں کے شہر سے جانا جاتا تھا۔  آج اپنی گندگی کےسبب کراچی کو کچراچی کہنا بے جا نا ہو گا ۔اور اس کچرے کو یہ شرف بھی حاصل ہےکہ ناصرف خبروں کا متن بن چکا ہے بلکہ سبھی سیاسی پارٹیوں کا منظورنظر بھی ہے۔ہر سیاسی جماعت اس کے خاتمے کا کریڈٹ تو لینا چاہتی ہے مگر ہاتھ نہیں لگانا چاہتی اورہرجماعت چاہتی کہ اس کارخیر کا معاوضہ بھی اسی کو ملے۔آج تک ہم نے سڑکوں اور ریل گاڑیوں پر سیاست دیکھی تھی آج کچرے پر سیاست دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہو گیا۔دیکھتے ہیں کراچی کی صفائی کا ہدف کس جماعت کو ملتا ھے اور بجٹ کس جماعت کو ملتا ہے۔کہیں ایسا نا ہو کہ کراچی میں امن بحال کرنے کی طرح صفائی بحال کرنے کا ہدف ایک بار پھر رینجر کو مل جائے ۔اور تمام سیاسی ۔جماعتیں ہاتھ ملتی اور "میں میں" ہی کرتی رہ جا ئیں از قلم راحیلہ کوثر

پہلی پوسٹ

 اسلام علیکم قلمی کاوش بلاگر میں خوش آمدید۔